محمد بلال یاسر
باجوڑ میں تحریک نفاذ شریعت محمدی ( تور پٹکی ): پس منظر ، ابتداء ، جنگ کے نقصانات اور اثرات
پس منظر/ ابتداء:
تحریک نفاذ شریعت محمدی کی بنیاد مالاکنڈ ڈویژن میں صوفی محمد نے 1992ء میں رکھی۔ اس کے ایک سال بعد اس تحریک کی شاخیں مختلف علاقوں میں پھیلنے لگیں اور باجوڑ میں اگست 1993ء میں امیر شیر بہادر نے اس تحریک کا آغاز کیا۔ باجوڑ کی شاخ اس تحریک کے لیے اس لیے بھی اہم تھی کہ نومبر 1994ء میں اس شاخ نے اپنی مسلح کارروائیوں کا آغاز کیا اور پورے باجوڑ میں فوجی چیک پوسٹوں پر حملے کرنا شروع کر دیئے۔
تحریک نفاز شریعت محمدی کا جھنڈا کالے رنگ کا تھا ۔ تحریک کا ہر ورکر کالے رنگ کی پگڑی باندھتا یا کالے رنگ کی ٹوپی پہنتا۔ اس وجہ سے انہیں تور پٹکی یا کالے پگڑی والا کہا جاتا تھا۔ مقامی علماء نے اس حوالے سے بتایا کہ چونکہ کالی پگڑی غزوات میں استعمال ہوتی تھی اس لیے صوفی محمد نے بھی کالی پگڑی کو ترجیح دی۔
ابتداء میں اس تحریک نے پورے ملاکنڈ ڈویژن میں بڑے بڑے اجتماعات کیے۔ یہی وجہ تھی کہ بہت جلد اس کا اثر و رسوخ باجوڑ تک پہنچ گیا۔ باجوڑ کی تحصیل ماموند اس کا گڑھ سمجھا جانے لگا ، یہاں کے مولوی شیر بہادر ، مسعود سالار ، ڈاکٹر اسماعیل اور شینا وغیرہ اس کے بانی ارکان تھے۔ شیر بہادر ایک جذباتی قسم کے انسان تھے ۔ دوران تقریر اکثر ان پر جذبات غالب آنے کے وجہ سے رو بھی پڑتے تھے۔
لیکن علاقے کی دانشور اور قومی اثر و رسوخ کے حامل لوگ اس تحریک سے لا تعلق تھے ۔ اس تحریک نے بہت جلد ترقی حاصل کرتے ہوئے پورے باجوڑ کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔ حالات اتنے بگڑ گئے کہ سیاسی انتظامیہ اپنی کالونی و چھاؤنیوں تک محدود ہوگئی ۔ پورا باجوڑ مذہبی ماحول کے زیر اثر آگیا ۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا: شریعت یا شہادت
علاقے کے عوام کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ علاقے میں پھر سے ایک خون ریز جنگ شروع ہونا متوقع ہے۔ اس تحریک کے ہزاروں کارکنان اور درجنوں قائدین روزانہ کی بنیاد پر دو تین جلسے کرتے۔لوگوں کو حکومت کے خلاف اکساتے۔ اسی دوران اس تحریک نے حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔
باجوڑ کے پہاڑوں اور بڑی شاہراؤں پر تحریک کے مسلح افراد کا قبضہ ہوگیا۔ اور شاہراؤں پر اپنے پاکٹس قائم کردیں۔ حکومت کا انتظامی ڈھانچہ ختم ہوگیا۔ اس موقعہ پر مولاناصوفی محمد تک مقامی عمائدین نے رسائی حاصل کی۔ جن لوگوں نے اس ملاقات میں حصہ لیا ان کا کہنا ہے کہ جب ہماری ملاقات ہوئی تو مولاناصوفی محمد نے واضح کیا کہ وہ جنگ نہیں چاہتے لیکن پھر ان کے ساتھی ان کو اپنے ساتھ لے گئے۔ حالات جنگ کی طرف تیزی سے جا رہے تھے لیکن تحریک کے بانی و مرکزی امیر صوفی محمد لاپتا تھے اور ان سے لا تعلق ہی رہے۔
تحریک کے مطالبات کو اس وقت تک تحریری شکل نہیں دی گئی تھی بلکہ سارے مطالبات زبانی تھے۔ لوگ نہیں جانتے تھے کہ یہ لوگ شریعت کہاں اور کس شکل میں چاہتے ہیں۔ جنگ کے بعد یہ بھی مشہور ہوگیا تھا کہ مولوی صوفی محمد کہا کرتے تھے کہ جنگ باجوڑ کے لوگوں نے خود سے شروع کی میں نے کسی کو جنگ کرنے کا حکم اور اجازت نہیں دی تھی۔
جنگ کا آغاز:
اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے نصیر اللہ بابر وزیر داخلہ تھے۔ مامدگٹ کے مقام پر باجوڑ پشاور کی مرکزی شاہراہ ( مین جی ٹی روڈ) پر تحریک کے جنگجووں کا قبضہ تھا ۔ اکتوبر 1994 میں مہمند کے راستے پاکستان کے فوجی دستوں نے پیش قدمی شروع کردی ۔ نومبر موسم خزاں میں ناوگئی (ضلع باجوڑ کا تاریخی گاؤں) کے مقام پر جنگ کا آغاز ہوگیا۔ باجوڑ کے تمام جنگجووہاں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ تقریباً ایک ہفتے تک ناوگئی سے لیکر ہیڈ کوارٹر خار(باجوڑ کا ضلعی ہیڈ کوارٹرجہاں سرکاری دفاتر وغیرہ واقع ہیں) تک لڑائی جاری رہی ۔ جنگ کے پہلے روز ناوگئی میں خاصہ دار فورس کے 40 سپاہیوں کو جنگجووں نے گرفتار کرلیا۔ اور ان کا اسلحہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس جنگ میں باجوڑ کی عوام اور تحریک کے کارکنان کا بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ قلعہ بالا حصار (قلعہ بالا حصار پشاور میں واقع ہے جو فرنٹیئر کور کا ہیڈ کوارٹر ہے) کی جانب سےخصوصی دستوں کی توپوں کی گولہ باری کے بعد یہ جنگ تحریک کے جنگجووں کی شکست پر ختم ہوگئی۔ جنگ کے بعد پورے باجوڑ میں کرفیو کا اعلان کردیا گیا۔
جنگ کے دوران جانی نقصان:
تحریک نفاذ شریعت محمدی باجوڑ اور حکومت کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے دوران کتنے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اس کا قطعی علم کسی کو نہیں کیوں کہ سبھی لوگ اپنا علاقہ چھوڑ چکے تھے۔ مگر دستیاب معلومات کے مطابق توپوں کی گولہ باری کی زد میں آکر پھاٹک میں خائستہ خان بس ڈرائیور ، عنایت کلے میں صالح محمد استاد ، کمر سر ماموند ملک محمد سعید کے جوان سال اکلوتے فرزند شوکت خان اور مشہور افغان جہادی شخصیت ملک حضرت الرحمان کے بیٹے عبد الوکیل جو کہ کالج کے طالب علم تھے جان کی بازی ہار گئے۔ اس کے علاوہ ناوگئی کی ابتدائی جنگ میں عزیز بابا ، ثمر حافظ ، کاکٹ حاجی جاں بحق ہو گئے ۔ سابقہ ایم این اے بسم اللہ خان حاجی کے گھر میں توپ کا گولہ لگنے سے ان کے ہاں کام کرنے والی خاتون ملازمہ بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
جنگجووں کے خلاف آپریشن کے بعد کی صورتحال:
جنگ ختم ہونے اور حکومتی عملداری قائم ہونے کے بعد تحریک سے وابستہ تمام تر لوگوں کو اس وقت کے علاقے میں نافذ ایف سی آر ( قانون ) کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ باجوڑ کے تجارتی مراکز کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ۔ عام لوگ جو اس تحریک سے لا تعلق تھے انہیں بھی جا بجا سیکیورٹی چیکنگ سے گزرنا پڑا۔
سینئر قائدین کی افغانستان کے صوبے کنڑ ہجرت:
اس خون ریز لڑائی میں تحریک کے مقامی نمائندوں میں سے کوئی بھی نہ مرا بلکہ سینئر لیڈرمولوی شیر بہادر ، مسعود سالار ، مولوی فقیر ، ڈاکٹر اسماعیل ، مشرف پاچا وغیرہ کی قیادت میں پچاس سے زائد علماء و قائدین أفغانستان کے صوبے کنڑ چلے گئے جسکا بارڈر پاکستان کے علاقے باجوڑ سے ملحق ہے۔
تحریک نفاذ شریعت محمدی باجوڑ کے بانی رہنما مسعود سالار ایک تقریب میں ۔ تصویر: بلال یاسر
وہاں پر أفغانستان کی جمعیت اسلامی کے امیر برہان الدین ربانی برسر اقتدار تھے۔ وہاں جاکر انہوں نے بی بی سی اور دیگر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ کا اعلان کیا۔ یہ جلا وطن تنظیم ایک عرصے تک پہاڑی چوٹیوں سے پاکستان کی جانب حملے کرتی رہی ۔ان کی مزاحمت کچھ زیادہ طویل ثابت نہ ہو سکی کیونکہ ان میں بہت سی تنظیمی کمزوریاں پائی جانے لگیں۔
مذاکرات و معافی:
کچھ عرصہ بعد حکومت کی جانب سے باجوڑ کے نامور مشر میاں شاہ جہاں کی قیادت میں ایک جرگہ ہوا۔ اس جرگے میں معروف قانون دان لطیف آفریدی ، ملک سید احمد ، ملک شاہ جہاں اور دیگر بھی شامل تھے ۔ جرگہ کامیاب ہوا ۔ تحریکی جنگجووں کے خلاف جنگی جرائم ختم کر دیئے گئے مسمار شدہ گھروں کا معاوضہ دیا گیا اور ان کی کچھ شرائط بھی تسلیم کرلی گئیں۔ اسی طرح یہ تحریک اس مقام پر ختم کر دی گئی۔
تحریک کے باجوڑ پر اثرات و نقصانات:
جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ اس تحریک کا مرکز ملاکنڈ ڈویژن تھا لیکن جنگ کا میدان باجوڑ ٹہرا، یہاں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ۔
اس کے اسباب بہت سارے تھے مگر اس تحریک کی قیادت سیاسی فہم و فراست سے دور اور مذہبی جوش وجذبے سے سرشار تھی اس تحریک میں صرف مذہبی لوگ شامل تھے۔ علاقائی مشران اور زیادہ تر سمجھدار لوگ لا تعلق تھے۔ یہ تحریک صرف جذبات پر مبنی تھی کوئی خاص اور معلوم متفقہ مطالبات ان کے پاس نہیں تھے۔ تحریک کا نا تو تنظیمی ڈھانچہ تھا اور نا ہی آئین۔ جو بھی کالی پگڑی باندھتا وہ چند دن بعد بڑا کمانڈر قرار دیا جاتا۔ اس تحریک کے لوگ باقی سیاسی جماعتوں کے بھی سخت مخالف تھے اور جمہوریت ان کے نزدیک کفر تھی۔ اس تحریک کی سب سے بڑی غلطی بہت جلد مسلح جدو جہد اور سرکاری آبادیوں پر قبضہ اور بعد ازاں افواج پاکستان کے ساتھ جنگ کرنا تھی جو عام عوام کے نقصان پر تمام ہوئی۔
نوٹ: اس تحریر میں مصنف کے خیالات اس کے اپنے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ وہ خراسان ڈائری کی پالیسی کی عکاسی کریں۔