May 10, 2024

Logo

نیوز فلیش : باجوڑ میں تحریک نفاذ شریعت محمدی ( تور پٹکی ): پس منظر ، ابتداء ، جنگ کے نقصانات اور اثرات افغان مہاجرین کی وطن واپسی؛ خدشات اور طالبان حکومت کے اقدامات

افغان مہاجرین کی وطن واپسی؛ خدشات اور طالبان حکومت کے اقدامات

شائع | October 30,2023

نجیبہ آرین

افغان مہاجرین کی وطن واپسی؛ خدشات اور  طالبان حکومت کے اقداماتimage

شمسیہ نے جب دو بچوں کے ہمراہ پاک افغان سرحد چمن کے مقام پر کراس کیا تو اس نے اپنا بھرا ہوا گھر، افغان فوج کی نوکری یہاں تک کہ نشے کا شکار اپنا بیمار شوہر بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

افغانستان کے صوبہ غزنی سے تعلق رکھنے والی شمسیہ آج کل کوئٹہ میں اپنی زندگی کافی مشکل حالات میں گزار رہی ہے اور اُس کا کوئی پرُسان حال نہیں ۔ روزانہ کی بنیاد پر تیزی سے بدلتے حالات اور بے یقینی کی جھلک آج بھی اس کی آنکھوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

افغان مہاجرین گزشتہ 40 سالوں سے پاکستان اور افغانستان کے مابین تنازعات کا شکار ایک مستقل مسئلہ رہا ہے۔ اکتوبر کے آغاز میں پاکستان کی نگران حکومت نے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا وقت دیا تھا اور ساتھ ہی خبردار کیا تھا کہ اگر کوئی رضاکارانہ طور پر نہیں نکلا تو حکام انہیں گرفتار کر کے اپنے وطن واپس بھیجیں گے۔

پاکستان کے نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق ملک میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن کی نشان دہی کر لی گئی ہے اور 31 اکتوبر کے بعد کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

 اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے خبردار کیا کہ غیر قانونی تارکینِ وطن سے معاونت کرنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے انخلا کے لیے عارضی کیمپ قائم کیے جا چکے ہیں جب کہ غیر قانونی طور پر پاکستانی شناخت رکھنے والوں کو جیلوں میں بھیجا جائے گا۔

یہ خبریں دو بچوں کی ماں شمسیہ تک بھی پہنچیں اور وہ لرز کر رہ گئیں۔ کیونکہ سترہ سالہ جوان بیٹی اور بارہ سالہ بیٹے کی ماں یہ جانتی تھی کہ فوج میں طالبان کے خلاف لڑتے ہوئے اس کی پانچ سالہ ملازمت کا ماضی اب اس کے حال اور مستقبل کا غذاب بننے والا ہے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے بار بار یہ وضاحت کی جا رہی ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ افغان مہاجرین پر نہیں ہوگا بلکہ ان افغان شہریوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی جو غیرقانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوئے یا اب وہ پاکستان میں موجودگی کی کوئی قانونی دستاویز نہیں رکھتے۔

دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے غیرملکی خبررساں ادارے کو ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان غیر ملکی تارکین وطن کی ملک بدری کے معاملے پر تمام متعلقہ ممالک بشمول افغانستان کی عبوری حکومت سے رابطے میں ہے۔

تارکین وطن سےمتعلق پاکستان کی حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ ملک بدری کا سامنے کرنے والے غیر ملکی شہریوں کو پاکستان کے قانون کے مطابق اپیل کا حق حاصل ہو گا اور ان کی اپیل کے فیصلے پاکستانی قانون کے مطابق کیے جائیں گے۔

اگرچہ طالبان حکام نے پاکستان کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی لیکن ساتھ ہی انہوں نے پاکستان سے ملک بدر کیے جانے والے مہاجرین کے معاملات کو منظم طریقے سے نمٹانے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جس میں چھ افغان وزارتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ طالبان کے سپریم لیڈرمولوی ہبت اللہ اخونزادہ کے حکم پر مذکورہ کمیشن کی سربراہی طالبان کے نائب وزیر اعظم مولوی عبدالسلام حنفی کررہے ہیں۔


تارکین وطن کی واپسی سے متعلق اعلیٰ سطحی کمیشن کا اجلاس. اجلاس میں افغان وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی، وزیر دفاع مولوی یعقوب مجاہد، ریاست الوزرا کے نائب مولوی عبدالسلام حنفی شامل۔

وزارت برائے مہاجرین اور واپسی کے لیے نائب وزیر مولوی عبدالرحمن راشد جوکہ اس کمیشن کے رکن بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ افغان صوبہ ننگرہار کے ضلع لعل پورہ اور قندھار کے ضلع تختہ پل میں دو کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور یہ کیمپ مختصر مدت کی خدمات فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مولوی عبدالرحمن راشد کے مطابق انہوں نے طورخم اور سپن بولدک سے ملحقہ علاقےمیں مہاجرین کے لیے پناہ گاہیں بھی بنائی ہیں۔

ننگرہار اور قندہار میں واقع ان کیمپوں میں ایک وقت میں ایک ہزار خاندانوں کو ٹھہرایا جائے گا۔ ان کیمپوں میں کھانے پینے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے قلیل مدتی تعلیمی پروگرام پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ ہر خاندان کو یہاں صرف ایک ماہ کے لیے رکھا جائے گا اور اس کے بعد یہ جگہ نئے آنے والےدیگر خاندانوں کے لیے خالی کر دی جائے گی۔


ننگرہار کے ضلع لعل پورہ میں کیمپ بنانے کی تیاریاں

لیکن کوئٹہ میں مقیم شمسیہ کے لیے یہ سوچنا بھی محال ہے کہ وہ سرحد پار کرکے افغانستان جائے۔ کیونکہ خواتین کی ملازمت پر تو پابندی ہے۔ بیٹی تعلیم حاصل نہیں کر سکتی اور بیٹا ابھی چھوٹا ہے۔ وہ عارضی کیمپ کے بعد کہاں جائے گی؟

فراہم کردہ معلومات کے مطابق زراعت اور آبپاشی کی وزارت نے ننگرہار کے ضلع لعل پورہ میں کیمپ کے لیے 600 ایکڑ زمین مختص کی ہے۔

افغان مہاجرین کے خدشات:

طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد انخلاء کے عمل کے دوران تقریباَ 1,20,000 سے زیادہ افغان شہریوں کو افغانستان سے نکلنا پڑا جب کہ ایک بڑی تعداد دیگر زمینی اور فضائی راستوں سے ایران اور پاکستان منتقل ہوئے۔

ان میں سے کئی افغان شہری ماضی کی حکومت، فوج یا غیر ملکی افواج کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں اور وہ امریکہ یا کسی اورمغربی ملک میں پناہ لیناچاہتے تھے۔

پاکستان میں مقیم یہ پناہ گزین اس وقت مہینے کے ان آخری ایام میں شدیدتشویش میں مبتلاء ہیں۔ان کے پاس یکم نومبر کی ڈیڈ لائن ہے ایسے میں انہیں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔

شمسیہ کہتی ہے کہ میری بقا کی واحد امید پاکستان میں اپنی زندگی گزارنا ہے۔ اس نے یہاں تک کہا کہ اگر ان کو زبردستی افغانستان بھیجنے کی کوشش کی گئی تو وہ چمن بارڈر کراسنگ پر خود کو آگ لگا دے گی۔ان کی خواہش ہےکہ حکومت پاکستان ان لوگوں کے ساتھ نرمی برتے جو افغانستان میں ظلم و ستم کا شکار ہوسکتے ہیں یا ان کو افغانستان سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔

حماسہ پاسون (فرضی نام) ایک افغان خاتون فنکار ہے جو ویزے پر پاکستان آئی تھی لیکن اب اس کے ویزے کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔اس نے اپنے پاکستانی ویزے میں توسیع کے لیے تین بار کوشش کی لیکن وہ ابھی تک ویزے کی توسیع میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

حماسہ کہتی ہیں کہ اقتدار کے پہلے ہفتے میں طالبان نے کہا کہ فنکاروں، خاص طور پر موسیقاروں کو اپنے پیشے بدلنے چاہئیں اور دوسری ملازمتوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس کے بعد مختلف صوبوں میں طالبان نے افغان فنکاروں کے آلات موسیقی کو جلا کر فنکاروں کوگرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ گھر گھر تلاشی کے دوران میں نے اپنے آلات موسیقی کو اس طرح چھپا کررکھا تھا جیسے میں کسی جرم میں ملوث مجرمہ یا محکومہ ہوں۔ اسی وجہ سے مجھے اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا۔

طالبان کی وزارت برائے مہاجرین اور واپسی کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ طورخم اور اسپن بولدک بارڈر پر تقریباً 78 ہزار افغان مہاجرین کوافغانستان منتقل کیا گیا۔ مولوی عبدالرحمن راشد کا کہنا ہے کہ پاکستان کا یہ فیصلہ مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے قوانین کے خلاف ہے اور حکومت پاکستان کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

افغان مہاجرین کا قافلہ طورخم بارڈر کراسنگ کی طرف گامزن 

اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور پاکستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن نے حال ہی میں پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ واپس لینے کی پرزور درخواست کی ہے کیونکہ  اس سے بہت سے افغانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ پاکستان کے اس فیصلے پر پاکستان میں پشتون قوم پرست سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کی معلومات کی بنیاد پر پاکستان میں اس ایجنسی کے ساتھ 13 لاکھ افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں اور حکومت پاکستان نے 2017ء میں ساڑھے آٹھ لاکھ افغان باشندوں کو رجسٹریشن کارڈ دیے ہیں۔ طالبان کی وزارت برائے پناہ گزین کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں بغیر دستاویزات کے تقریباً 500,000 افغان مقیم ہیں۔

ان اعداد وشمار میں گو کہ شمسیہ ایک عدد ہے لیکن لاکھوں اعدادوشمار میں بے بسی کی لاکھوں کہانیاں ہیں۔ شمسیہ کو ایک جانب اپنا پیچھا کرتے ماضی سے چھٹکارا پانا ناممکن نظر آتا ہے جبکہ مستقبل بھی کچھ خاص روشن نہیں دکھ رہا۔

گزشتہ دو سالوں میں پاکستان اور افغانستان کو نئے طرز کے باہمی کئی سفارتی، سیاسی اور سیکیورٹی کے میدان میں پیچیدہ,مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کی جانب سے غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کوافغانستان میں حکومتی اور عوامی سطح پر ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ جبکہ پاکستان اس پورے عمل کو اپنے داخلی حالات کے تناظر میں دیکھ رہا ہے جس میں سرفہرست اقتصادی اور امن وامان کی مخدوش صورتحال ہے۔غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی بے دخلی کا یہ عمل کس حد تک کامیاب رہتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اس سے دونوں ممالک کے مابین کم ازکم عوامی سطح پر خلیج بڑھنے کا  قوی خدشہ ہے۔