January 09, 2025

Logo

نیوز فلیش : باجوڑ میں تحریک نفاذ شریعت محمدی ( تور پٹکی ): پس منظر ، ابتداء ، جنگ کے نقصانات اور اثرات افغان مہاجرین کی وطن واپسی؛ خدشات اور طالبان حکومت کے اقدامات

خیبر پختونخواہ کی انتہائی مطلوب واحد دہشت گرد خاتون کون ؟

شائع | October 12,2023

عمران بخاری

خیبر پختونخواہ کی انتہائی مطلوب واحد دہشت گرد خاتون کون ؟image

اتوار اکیس جولائی 2019ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں زندگی معمول کے مطابق تھی کہ اسی دوران ایک چیک پوسٹ پر عسکریت پسندوں نے فائرنگ کرکے دو پولیس اہلکاروں کو قتل کر دیا۔ ان دو پولیس اہلکاروں کے جسد خاکی ڈیرہ اسماعیل خان کے مرکزی ہسپتال لائے گئے۔ 

جیسے ہی ہسپتال میں لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوا ہسپتال کی ایمرجنسی میں ایک زوردار دھماکہ ہوا جس میں آٹھ افراد جان کی بازی ہار گئے اور درجن بھر زخمی ہو گئے۔ دراصل عسکریت پسندوں نے یہ سب کچھ حکمت عملی سے طے کیا تھا۔ ان کا اندازہ تھا کہ جب پولیس اہلکاروں کی لاشیں ہسپتال لائی جائیں گی تو بڑی تعداد میں پولیس اہلکار اور حکام ہسپتال پہنچیں گے اور اس دوران خودکش حملے سے ان کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اس کام کے لیے عسکریت پسند کمانڈر رضوان کی بیوہ اور بعد ازاں عسکریت پسند کمانڈر کفایت کی نکاح میں آنے والی پروین بی بی کو تیار کیا گیا تھا۔ لیکن ہماری کہانی کا مرکزی کردار پروین بی بی نہیں ہے بلکہ پروین بی بی کو اس خودکش حملے کے لیے تیار کرنے والی خاتون ہے۔

اس خاتون کا نام قرۃ العین ہے۔ جن کے سر کی قیمت خیبرپختونخواہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تین لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ وہ انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی حال ہی میں جاری کردہ فہرست میں واحد خاتون کی حیثیت سے موجود ہے۔


اس کہانی کا آغاز دراصل ڈیرہ اسماعیل خان کے اس ہسپتال سے 360 کلومیٹر دور اسلام آباد کی لال مسجد سے ہوا تھا۔ حویلیاں سے تعلق رکھنے والی قرۃ العین نے لال مسجد کے مقامی مدرسہ جامعہ سیدہ حفصہ سے تعلیم مکمل کی۔ دوران تعلیم اس کا تعارف دو بہنوں سے ہوا۔ ان دو بہنوں کے بھائی نثار معاویہ کا تعلق خطے میں موجود جہادی تنظیموں خصوصاَ کالعدم لشکر جھنگوی کے ساتھیوں سے رہا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ نثارڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والےمشہور عسکریت پسنداقبال عرف بالی کھیارہ کے بھی بہت قریبی تھا۔ حصول تعلیم کے بعد ان تینوں سہیلیوں نے عسکریت پسندوں سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی ٹھانی۔ اس اثناء میں نثار نے قرۃ العین کا ذکر اقبال سے کیا۔ تمام بات چیت طے ہونے کے بعد اقبال نے قرۃ العین سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے رمک میں پہلی ملاقات کی اور اس کے دوران اپنا نام "شانی" بتایا۔

بعد ازاں نکاح کے وقت قرۃ العین کو معلوم ہوا کہ اس کا اصل نام شانی نہیں بلکہ اقبال ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اقبال پہلے سے ہی ریڈار پر تھا اس لیے شادی کے بعد قرۃ العین بھی پولیس کی نظروں میں آئی اور ایک بار تفتیش کی غرض سے اسے حراست میں بھی لیا گیا تھا۔ تاہم عدالت کی جانب سے ہدایت کے بعد پولیس نے اسے چھوڑ دیا۔ رہائی کے فوراً بعد وہ افغانستان چلی گئی جہاں اقبال پہلے سے موجود تھا۔

اس دوران اس جوڑے کے ہاں بیٹے کی پیدائش بھی ہوئی۔ تاہم کچھ برس بعد یہ واپس پاکستان آگئے۔ اس دوران قرۃ العین کی شناسائی اقبال کے خاندان کے دیگر افراد سے بھی بڑھ گئی خود قرۃ العین کے بھائی بھی اس جنگ میں کود چکے تھے۔ 

ان میں ایک رضوان بھی تھا جو کہ ان کے قریبی رشتے داروں میں سے تھا۔ اور تفصیلات کے مطابق رضوان بھی عسکریت پسندی کی کئی کارروائیوں میں ملوث تھا۔ رضوان کی شادی پروین بی بی نامی خاتون سے ہوئی تھی۔  قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مقابلے کے دوران جب رضوان کی ہلاکت ہوئی تو پروین کی شادی خاندان کے ایک اور فرد کفایت سے کرائی گئی وہ بھی عسکریت پسندی میں ملوث تھا۔ 

 قانون نافذ کرنے والے ادارے اقبال کا مسلسل پیچھا کر رہے تھے۔ اس دوران معلوم ہوا کہ قرۃ العین ریڈار سے غائب ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ وہ علاج کی عرض سے کراچی گئی تھی۔ واپسی پر ڈیرہ غازی خان میں رک گئی تھی۔ ریڈار پر آنے کے بعد حساس اداروں کو معلوم ہوا کہ اقبال سمیت یہ خاندان ایک بار پھر متحرک ہونے لگا ہے اس لیے اطلاعات کی بنیاد پر ان کے خلاف چھاپوں کا آغاز ہوا۔

ان کارروائیوں میں حساس اداروں کو بڑی تعداد میں اسلحہ، بارود اور خودکش جیکٹیں ملیں لیکن اصل کردار کسی نا کسی شکل میں فرار ہو جاتے۔ 2019ء کے یہ وہ دن تھے کہ پروین بی بی نے بالآخر قراہ العین کو اپنی مایوسیوں کے حوالے سے بتایا کہ اب وہ اس مسلسل چھپ کر اور بھاگ کر جینے سے تنگ آ گئی ہے۔ تب قراہ العین نے اسے خودکش حملے کے لیے تیار کیا۔ ایک مؤثر منصوبہ تشکیل دینے کے بعد پروین بی بی نے اکیس جولائی 2019ء کو ڈیرہ اسماعیل خان ہسپتال میں خود کو اڑا دیا۔

اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ تاہم تنظیم کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک بیان میں خودکش حملہ آور کے خاتون ہونے کی تردید کی تھی۔ 

دھشت گردی اب انفرادی فعل نہیں رہا بلکہ خاندانی بزنس کی شکل اختیار کرچکا ہے 

پاکستان اور افغانستان کے روایتی ماحول میں مرد حضرات کا عسکریت پسندی سے وابستہ ہونا اب کوئی انہونی بات نہیں رہی لیکن خواتین کا عسکریت پسند بننا اور وہ بھی عملی طور پر، ایسا شاذ و نادر ہی دیکھا گیا ہے۔

 یہ خاتون جس کا نام قرۃ العین یعنی آنکھ کی ٹھنڈک ہے لیکن یہ آنکھ کی ٹھنڈک اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھ کا تنکا بن گئی ہے جس کی چبھن ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔

قرۃ العین کہاں ہے؟ اقبال کھیارہ کا کیا بنا؟ جب اس حوالے سے محکمہ انسداد دھشت گردی حکام سے بات کی گئی تو علم ہوا کہ اقبال جو کچھ عرصہ قبل پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ اقبال کی اس سے قبل بھی متعدد بار مارے جانے کی اطلاعات موصول ہوئیں تھیں لیکن بعد میں وہ اطلاعات درست ثابت نا ہوسکیں اور مئی 2023ء میں پولیس مقابلے میں اقبال سے بالآخر پولیس نے چھٹکارا حاصل کرلیا۔

 قرۃ العین اور اس کے بھائی اشفاق کے خلاف تھانہ سی ٹی ڈی ہزارہ میں  ایف آئی آر بھی درج ہے جس میں ستمبر 2022 کو حویلیاں میں اقبال  اور قرۃ العین کے بھائی کی ایک گھر میں موجودگی کی اطلاع پر خفیہ ایجنسی اور ہزارہ پولیس کے اہلکاروں نے چھاپہ مارا جس کے دوران یہ سب فرار ہوگئے تھے جبکہ مقابلے میں پولیس اہلکار شدید زخمی ہوگیا تھا اور قرۃ العین کے ایک اور بھائی کو زخمی حالت میں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

کچھ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ قرۃ العین کسی حکومتی کارروائی میں ماری جاچکی ہے۔ لیکن آزاد ذرائع ابھی تک تصدیق نہیں کر پارہے۔

تاہم تحریک طالبان پاکستان کے ایک اہم کمانڈر سے جب خراسان ڈائری نے قرۃ العین سے متعلق معلومات لینے کے لیے رابطہ کیا تو اُنھوں نے قرۃ العین کی موت کی تصدیق کی۔ 

انہوں نے بتایا کہ دوسال پہلے اُس نے خود اُس کے جنازے میں شرکت کی تھی۔ مزید یہ کہ وہ کسی حکومتی کارروائی میں نہیں ماری گئی بلکہ وہ پیٹ کے عارضے میں مبتلا تھی جس کی تشخیص نہیں ہو پارہی تھی اور اُسی وجہ سے اُن کی موت واقعہ ہوئی۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ جامعہ حفصہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ وہاں بچیوں کو پڑھاتی بھی تھیں۔

‎اور جب اقبال پاکستان تشکیل کے لیے جاتے تھے تووہ بھی کھبی کھبار ساتھ ہوتی تھی۔ اس وجہ سے ایک دفعہ گرفتار بھی ہوئیں تھی۔ بقول کمانڈر اقبال نے حکومت کو مذاکرات کے نام پر چکر دیا اور اپنی اہلیہ کو رہا بھی کروایا۔

اس کے علاوہ دو مزید مطلوب عسکریت پسند کمانڈرز طارق عرف بٹن خراب اور اقبال عرف بالی کھیارہ اس سی ٹی ڈی کی حال ہی میں شائع ہونے والی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں جو کہ خود حکومتی دعووں کے مطابق مارے جا چکے ہیں۔ 



محکمہ انسداد دھشت گردی حکام کے مطابق فہرست میں اضافے کا امکان ہے اور اس حوالے سے جلد تازہ فہرست بھی جاری کی جائے گی۔ 

محکمہ انسداد دھشت گردی اس کے علاوہ ٹیرر فائنانسنگ کے حوالے سے بھی کام جاری رکھے ہوئے ہے اور عسکریت پسندوں کو مالی معاونت فراہم کرنے پر 198 مقدمات کا اندراج کیا جا چکا ہے۔پشاورریجن میں سب سے زیادہ 71،خیبر میں 67 مقدمات ضلع مہمند اور مردان میں 10، 10 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے پر 777 افراد مقدمات میں نامزد ہیں۔ جن میں سے 245 ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جبکہ 15 افراد مارے جاچکے ہیں۔

عسکریت پسندی کی اس لہر نے گھر اور کاروبار دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ خون اور کاروبار کے رشتے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائے۔