January 09, 2025

Logo

نیوز فلیش : باجوڑ میں تحریک نفاذ شریعت محمدی ( تور پٹکی ): پس منظر ، ابتداء ، جنگ کے نقصانات اور اثرات افغان مہاجرین کی وطن واپسی؛ خدشات اور طالبان حکومت کے اقدامات

بلوچستان میں ممکنہ انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتیں مشکلات کا شکار

شائع | September 30,2023

امتیاز بلوچ

بلوچستان میں ممکنہ انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتیں مشکلات کا شکارimage

الیکشن کمیشن نے 21 ستمبر کو اگلے سال کے جنوری کے آخری ہفتے میں ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس اعلان  سے پہلے ہی اپنی الیکشن مہم کاباقاعدہ آغاز کرنے کے لیے پلاننگز کرتی دکھائی دے رہی تھیں۔ بارہ اگست 2023کو بلوچستان کی صوبائی اسمبلی  تحلیل کردی گئی تھی اور اس کے فوراَ بعد ہی تمام چھوٹی ، بڑی اور مقامی  سیاسی پارٹیوں نے اپنے ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچانے اور آنے والے عام انتخابات کے لیے حکمت عملیاں بنانی شروع کر دی تھیں۔ 

صوبائی جماعتوں کو جہاں انتخابی مہم میں دیگر مسائل کا سامنا ہے وہیں ان کی سب سے بڑی فکر ان کی اپنی اور ووٹرز کی سیکیورٹی ہے۔ بلوچستان میں اب بھی کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پرعسکریت پسند انتہائی سرگرم ہیں اور وہ الیکشن کے انعقاد کو اپنے لیے براہ راست ایک چیلنج سمجھتے ہیں۔ اور ان علاقوں میں  عسکریت پسندوں کے علاوہ مقامی کالعدم  سیاسی جماعتیں جن میں بلوچ نیشنل موومنٹ، براہمداغ بگٹی کی بلوچ ریپلکن پارٹی اور حیربیار مری کی فری بلوچستان موومنٹ شامل ہیں لوگوں میں الیکشن  کے بائیکاٹ  کی مہم چلاتی دکھائی دیتی ہیں۔

اگر 2018 کے انتخابات کی بات کی جائے تو عین الیکشن کے دن بھی کوئٹہ میں داعش خراسان نے ایک پولنگ اسٹیشن کو نشانہ بنایا تھا اس حملے میں 31 افراد ہلاک جبکہ 40 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ اس سے پہلے مستونگ کے علاقے کانک میں الیکشن مہم کے دوران مستونگ سے بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی کو ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا جس میں سو سے زائد لوگ  جاں بحق اور کئی افراد زخمی  ہوئے تھے۔ اب بھی حالات کچھ ایسے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ انتخابی مہم کی منصوبہ بندی شروع ہوتے ہی سیاسی پارٹیوں پر عسکریت پسندوں کے حملے بھی شروع ہو گئے ہیں۔

بلوچستان میں انتخابی عمل کو درپیش چیلنجز سے متعلق الیکشن کمیشن کے ترجمان ہارون خان نے بتایا کہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں پرامن انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا اور بلوچستان میں پرامن پولنگ کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جائےگی۔ پولنگ کے دن اور جب انتخابی سرگرمیاں شروع ہوں گی، سیکیورٹی کے مکمل اقدامات کئےجائیں گے اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات بروئے کار لائی جائیں گی۔

نیشنل پارٹی ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے مرکزی فنانس سیکرٹری حاجی فدا حسین دشتی اور ضلعی صدر مشکور بلوچ کے گھروں پر ایک ہی دن میں دو مختلف حملے کیے گئے ۔جسکی ذمہ داری  تاحال کسی بھی عسکری گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔

7 اگست کو دوبارہ ضلع کیچ کے ہی علاقے بالگتر میں ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک یونین کونسل چئیرمین محمد اسحاق کو نشانہ بنایا گیا جس میں وہ دیگر 7 لوگوں کے ہمراہ جاں بحق ہو گئے اس حملے کی ذمہ دار ی بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی تھی۔

اس حوالے سے نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اسلم بلوچ نے خراسان ڈائری کو بتایا کہ ہم اپنی تحقیقات کررہے ہیں جبکہ نیشنل پارٹی کے ایک اور رکن دلاور بلوچ کو بھی گزشتہ مہینے قتل کردیا گیا تھا جس کی ذمہ داری بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے ایک دھڑے جس کی سربراہی انور عرف چاکر کررہے ہیں نے  قبول کی تھی تاہم تنظیم کے مرکزی ذرائع ابلاغ نے اس واقعہ سے اظہار لاتعلقی کا بیان جاری کیا تھا۔

اسلم بلوچ نےمزید  کہا کہ مسلح تنظیموں کے اندرونی اختلافات سے عام سیاسی کارکنوں کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ مسلح تنظیمیں اگر سیاسی کارکنوں کو مخبری یا کوئی اور نام نہاد الزام لگا کر مارنا شروع کر دیں گے تو اس سب کے سبب ایک خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہوجائے گا۔ اور کسی بھی معاشرے کے لیے ایسی صورتحال اچھی ثابت نہیں ہو سکتی۔

مستقبل میں عام الیکشن سے متعلق خراسان ڈائری کے ایک سوال کے جواب میں نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ  ہمیشہ سے عام الیکشن سے قبل نیشنل پارٹی کی  سیاسی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے اس طرح کا ماحول پیدا کیا جاتا رہا ہے لیکن اب صرف یہ حملے ہی واحد وجہ نہیں ہے بلکہ دیگرعوامل بھی سیا سی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کا سبب بن رہے ہیں۔

 نیشنل پارٹی کے رہنماؤں پر حملوں کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے صدر اور سابق صوبائی وزیر اسداللہ بلوچ کے گھر پنچگور اور کوئٹہ میں بھی دو مختلف حملے کئے گئے تھےانکی بھی ذمہ داری کسی   عسکری تنظیم نے قبول نہیں کی۔

 بلوچستان میں اسی سال بلدیاتی انتخابی عمل کو صرف بلوچ لبریشن آرمی  کے جئیند گروپ نے سات مختلف حملوں میں نشانہ بنایا۔  ان سات حملوں میں تربت،خضدار، نوشکی اور قلات میں پولنگ اسٹیشنز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کوہلو کے علاقے جنتلی کے مقام پر 6 لیویز اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جو کہ سیاسی سرگرمی کی سیکیورٹی پر مامور تھے۔ اس  کی ذمہ داری بی ایل اے آزاد گروپ نے قبول کی تھی جبکہ ڈیرہ بگٹی کے علاقے پھیلاوغ میں الیکشن اسٹاف کے سکیورٹی مہیا کرنے والی ٹیم پر ایک حملے میں ایک لیویز اہلکار جاں بحق جبکہ تین زخمی ہوئے تھے جسکی ذمہ داری کسی عسکری تنظیم نے قبول نہیں کی تھی۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار صحافی اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار نے خراسان ڈائری کو بتایا کہ عام انتخابات سمیت لوکل باڈیز الیکشن کے قریب آتے ہی پولنگ اسٹیشنز،  الیکشن سے متعلق تقریبات اور انتخابات کے انعقاد  کے دن بھی پر تشدد واقعات رونما ہوتے آرہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک عام الیکشن  کے حوالے سے کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن جن حملوں کی ذمہ داریاں قبول نہیں کی گئیں ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام الیکشن سے قبل لوگوں میں خوف پیدا کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کریں اور اسی طرح نگران حکومت کو بھی محدود کرنے کی کوشش ہوسکتی ہیں۔

بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں پر حملے اور انتخابی عمل کو نقصان پہنچانے کے سوال پر الیکشن کمیشن کے ترجمان نے خراسان ڈائری کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کیلئے پرامن انتخابات کے لیے ہمیشہ اولین ترجیح ہے اور ماضی قریب میں مختلف ضمنی انتخابات سمیت سندھ اور خیبرپختونخواہ کے لوکل باڈیز الیکشن کے دوران بڑی کارروائیاں کی گئی ہیں اور بہت سے لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اور تمام مجرموں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔

 2008 میں سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ)، ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی، محمود خان اچکزئی کی پختونخوامیپ کی طرف سے الیکشن کے بائیکاٹ کے اعلان کی وجہ سے صوبے میں قوم پرست سیاسی جماعتیں ملک کی قومی اور صوبے کی صوبائی اسمبلی تک نہیں پہنچ سکیں۔ اور اِن قوم پرست جماعتوں نے اس الیکشن کے نتیجے میں اسمبلیوں میں پہنچنے والوں پر صوبے کے اہم مسائل کو حکومتی ایوانوں میں موثر طریقے سے نہ اُٹھانے کے الزامات لگائے۔

ان پانچوں سالوں کے دوران اسمبلیوں میں مضبوط  آوازوں کے نہ ہونے کے سبب مسلح تنظیموں کی کارروائیوں میں ایک خاطرخواہ حد تک اضافہ ہوا جس کے اثرات  2013 کے عام انتخابات میں  بھی واضح نظر آئے جب انتخابات کی مہم کے دوران سابق وزیراعلی نواب ثناءاللہ زہری کے قافلے کو خضدار کے علاقے میں انجیرہ کے مقام پر بلوچ لبریشن آرمی نے ایک بم حملے کے ذریعے نشانہ بنایا جس کے سبب ثناءاللہ زہری کا بیٹا سکندر زہری سمیت دو دیگر قریبی رشتہ دار جاں  بحق ہوگئے تھے۔ ان حملوں کی وجہ سے ووٹر ٹرن آوٹ پربھی  گہرا اثر پڑا اور آواران سے اس وقت کے مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے عبدالمجید بزنجو کے بیٹے عبدالقدوس بزنجو 570 کے قریب ووٹ لیکر بعد میں  ثناءاللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد سامنے لانے کے بعد وزیراعلی منتخب  ہوگئے۔

بعد میں  مسلح تنظیموں کی مختلف اشاعت کے تجزیے  سے یہ بات سامنے آئی  کہ عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق نہ صرف مسلح کارروائیاں کی گئیں بلکہ رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں سمیت اختر مینگل کے خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے الیکشن میں حصہ لینے  کے فیصلے پر اسے شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایاگیا۔  بعد ازاں لوگوں سے انتخابات میں حصہ نہ لینے کی اپیل سمیت وال چاکنگ اور الیکشن اسٹاف کو ان معاملات سے دور رہنے کی دھمکی  بھی دی گئی تھی۔

بلوچستان میں جہاں مسلح قوم پرست تنظیمیں سرگرم ہیں وہی داعش جیسی عالمی جہادی تنظیمیں بھی موجود ہے 2018 کے انتخابات میں داعش کے دو مختلف حملوں کے سبب سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا اسی طرح آنے والے انتخابات سے قبل بھی داعش نے سیاسی رہنماؤں پر حملے شروع کردئیے ہیں 14 ستمبر کو جس میں جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے رہنما سابق صوبائی وزیر اور سابق سینیٹر حمداللہ کے قافلے کو مستونگ کے علاقہ جوتو میں نشانہ بنایا گیا جو قلات میں کسی اجتماع میں شرکت کرنے جارہے تھے جس میں حافظ حمداللہ سمیت 7 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

شہزادہ زوالفقار نے مزید کہا کہ ماضی میں اختر مینگل کی پارٹی کے سو کے قریب کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اسی طرح نیشنل پارٹی کے کئی رہنماؤں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا اور ممکن ہے عام الیکشن سے قبل ہونے والے سیاسی جماعتوں پر یہ حملے شروعات ہوں  لیکن وڈھ جیسے واقعات  جس میں دو قبائلی رہنما ہی آپس میں لڑپڑیں ہے جو مسلح عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی کا سبب بن سکتے ہیں۔

الیکشن شیڈول کا اعلان اور مہم کا دورانیہ شروع ہو گیا. تمام اضلاح میں ہم مانیٹرنگ ٹیمیں مقرر کریں گے جن کی سربراہی ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسرز کریں گے اور وہ روزانہ تمام انتخابی مہمات کو باریک بینی سے چیک کریں گے اور قانون کے مطابق فوری کارروائی کریں گے. الیکشن کمیشن کے ترجمان نےمزید کہا کہ ”تمام علاقائی الیکشن کمشنر پہلے ہی اپنے متعلقہ ڈویژن کے لیے ریجنل مانیٹرنگ کوآرڈینیٹر مقرر کردئیے گئے ہے اور وہ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ ٹیموں کے کام کی نگرانی کریں گے اور روزانہ اپنی رپورٹ الیکشن کمیشن اسلام آباد کو بھیجیں گے۔“