اکیس مئی 2023ء کو سہ پہر کے وقت ضلع مردان تھانہ چورہ کی حدود میں دوبئی اڈہ سے ملحقہ باغات کے بیچ سے گزرتی سڑک پر پولیس موبائل گشت پر تھی۔ اسی دوران اچانک پولیس پر فائرنگ کر دی گئی۔ پولیس کی جوابی فائرنگ میں ایک عسکریت پسند مارا گیا۔
رات گئے تک شعبہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکار فرار ہونے والے عسکریت پسندوں کی تلاش میں چھاپے مارتے رہے۔
ایک سیکیورٹی اہلکار سے جب بات کی گئی تو اس نے بتایا کہ میں ایک روز قبل یہاں کی تلاشی کر چکا تھا۔ اور اسے تحریک طالبان پاکستان کے ایک اہم کمانڈر محسن قادر کی تلاش تھی ۔ یہ عسکریت پسند علاقے میں واقع کرشنگ پلانٹ سے بھتے کی وصولی کے لیے مرکزی قیادت کی ہدایت پر آئے تھے۔
کہانی کچھ یوں تھی کہ صوابی سے تعلق رکھنے والے ایک ٹھیکیدار نے دوبئی اڈہ کے قریب واقعہ ان پہاڑیوں میں نصب کرشنگ پلانٹ کا ٹھیکہ لیا تھا۔ اس ٹھیکیدار کے پیچھے عسکریت پسندوں نے بندے بھیجے کہ اگر واقعی کام سکون سے کرنا ہے تو پیسے دینے پڑیں گے۔ کافی بحث وتمہید کے بعد طے پایا کہ متعلقہ ٹھیکیدار کمائی کا پانچ فیصد متعلقہ طالبان تنظیم کو دے گا۔ سیکیورٹی اہلکار کے مطابق یہ رقم دو کروڑ روپے بنتی تھی۔ لیکن بعد ازاں اخراجات کو دیکھتے ہوئے متعلقہ ٹھیکیدار نے رقم کی ادائیگی سے معذرت کر لی۔ اکیس مئی کی سہ پہر وہ وقت تھا کہ تنظیم کے بندے پیسوں کی وصولی کے لیے کرشنگ پلانٹ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ دوسری جانب چورہ پولیس اسٹیشن کی نفری پہلے سے ہی طالبان کمانڈر محسن قادر کی تلاش میں سرگرم عمل تھی کہ ان کی مڈبھیڑ ہو گئی۔
مردان خیبرپختونخوا کا ایک نسبتاً خوشحال، متحرک اور پر امن شہر سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ 2005ء میں القاعدہ کے تیسرے بڑے رہنما ابوفراج اللیبی کی گرفتاری اسی شہر سے کی گئی تھی۔
مئی 2005 میں ضلع مردان، پاکستان میں پکڑے جانے والے ابو فراج اللیبی القاعدہ کے بیرونی عملیات کے انچارج تھے۔ اللیبی جو اب گوانتانامو بے جیل میں قید ہیں انہوں نے 2004 میں عراق میں ابو معصب الزرقاوی کے گروپ کو القاعدہ میں ضم کرنے کے عمل میں بھی قلیدی کردار ادا کیا تھا۔
وقتاً فوقتاً اس شہر میں خودکش حملے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن اس ضلع میں پندرہ اگست 2021ء یعنی جب سے افغانستان میں طالبان نے حکومت سنبھالی ہے کے بعد عسکریت پسندوں کی اس طرح نقل وحرکت اور فنڈز کلکشن کبھی ماضی میں نہیں دیکھی گئی۔
مردان میں اس طرح کی ٹیررفنانسنگ یعنی عسکریت پسندی کے لیے فنڈنگ کے یہ اثرات ہمیں اعدادوشمار میں بھی ملتے ہیں۔ حال ہی میں خیبرپختونخوابم ڈسپوزل سکواڈ کی جانب سے 2023ء کے پہلے چھ ماہ کے جو اعدادوشمار جاری ہوئے ہیں اس کے مطابق صوبے بھر میں 361 بم وبارودی مواد کو ناکارہ بنایا گیا اور اس میں مردان سرفہرست رہا۔ مردان میں دستی بموں، راکٹ اور ریموٹ کنٹرولڈ بموں سمیت 115 بم وبارودی مواد کو ناکارہ بنایا گیا۔
اس وقت ملک بھر میں بالعموم اور خیبرپختونخوا میں بالخصوص تشدد کی ایک نئی لہر داخل ہو چکی ہے۔ اس کے لیے فنڈز کہاں سے آتے ہیں؟ ظاہری بات ہے کہ ان عسکریت پسند تنظیموں کو چلانے، اسلحہ بارود کی خریداری، ان کی رہائش و تربیت، سہولت کاری کے لیے ٹیموں کی تشکیل اور نقل وحرکت پیسے کے بغیر تو ناممکن ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس سے قبل تو امریکی اتحادی افواج کے خلاف پوشیدہ قوتیں افغان طالبان کو فنڈز فراہم کرتی رہی ہیں اور ان میں سے اچھا خاصا حصہ پاکستانی طالبان خصوصاَ حقانی نیٹ ورک کو بھی مل جاتا تھا۔ گو کہ پاکستانی حکومت ماضی میں ایسے بیانات دیتی رہی ہے کہ پاکستانی طالبان کو راء فنڈنگ کرتی ہے۔ لیکن اب تو وہ سپلائی بھی محال ہے کیونکہ پورے افعانستان میں افغان طالبان کی امارات قائم ہو چکی ہے۔ اس لیے وہ خود یا کسی دوسرے ملک کو قطعاً یہ سہولت فراہم نہیں کریں گے کہ وہ ان پاکستانی عسکریت پسندوں کو فنڈز فراہم کریں۔
پھر یہ فنڈنگ کس طرح ممکن ہوتی ہے؟ ماضی کی طرف جھانک کر دیکھیں تو دنیا بھر کی عسکریت پسند تنظیمیں چندوں سے لے کر بسا اوقات جرائم پر مبنی کارروائیوں سے جنگ کے لیے رقوم کا بندوبست کرتی رہی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے فنڈز کے حصول کا ماڈل زیادہ تر افغان طالبان سے لیا ہے۔ اس میں چندے سے لے کر غیرسرکاری تنظیموں سے بھتہ اور اغواء برائے تاوان تک کے اقدامات شامل رہے ہیں۔ البتہ پاکستان کی عسکریت پسندتنظیموں کے طریقہ کار نے اس میں جدت کے ساتھ ساتھ تغیر بھی متعارف کرایا ہے۔ لشکر طیبہ جیسی تنظیموں نے فلاح وبہبود کے اداروں کی شکل میں اس کو ایک جدید شکل سے روشناس کرایا۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی عسکریت پسند تنظیموں نے فنڈنگ کے لگ بھگ تمام ماڈل آزمائے ہیں۔ اس میں رئیل اسٹیٹ (قبضہ مافیا) کے کاروبار، اغواء برائے تاوان، چندہ، افیون کی کاشت، جنگلات، کان کنی،معدینیات، اسلحے کی خریدوفروخت، ڈیزل اور پٹرول کی سمگلنگ اور براہ راست بھتہ خوری وغیرہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔
ماضی میں تو پاک افغان سرحد پر واقعہ افیون کی فیکٹریوں سے پندرہ فیصد تک باقاعدہ ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔ سابقہ خیببر ایجنسی میں عسکری آپریشن سے قبل جب لشکر اسلام کا زور چل رہا تھا۔ تب افیون کے ہر گودام میں ایک منشی پیداور کے حجم کا ریکارڈ رکھا کرتا تھا۔ جب گاڑی گودام سے نکلتی تو منشی وزن کا پرچہ دیا کرتا تھا۔ پھر تنظیم کے نمائندے اپنے قائم کردہ چیک پوسٹوں پر پرچہ دیکھتے اور فی سیر پانچ سو روپے کا ٹیکس کاٹتے۔ یہ پیدوار ٹنوں کے حساب سے ہوتی تھی۔ سولہ اپریل 2008ء کو اسی رقم کے تنازعہ پر کوکی خیل آفریدی قبیلے اور لشکر اسلام کے مابین لڑائی کے نتیجہ میں بیس افراد مارے گئے تھے۔
ایسے ہی ایک کمانڈر سے پوچھا تو کہنے لگا کہ فصل کا ٹیکس عشر میں کٹتا ہے۔ چونکہ بھنگ ایک پودا ہے اس لیے اس کی فصل پر ٹیکس بنتا ہے۔ جو بارانی فصل ہوتی ہے اس پر دس فیصد اور جو خود سیراب کی جائے اس پر پانچ فیصد ٹیکس کا شرعی قانون ہے۔
یہی صورتحال وزیرستان میں بھی رہی یہاں کی عسکریت پسند تنظیمیں اور رہنما نا صرف چلغوزے اور دیگر جنگلات سے کروڑوں روپے وصول کر چکے ہیں بلکہ قومیت کے باعث کچھ جنگلات پر تو اپنا حق بھی جتاتے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے عسکریت پسند یہاں کرومائیٹ کے پہاڑوں اور ٹھیکوں سے باقاعدہ بھتہ وصول کرتے رہےہیں۔ شمالی وزیرستان میں تو مقامی عسکریت پسند رقم اور زمینوں کی لین دین کے جرگوں میں شریک ہو کر خود ہی جرگہ فیس بھی وصول کرتے رہے ہیں۔
دراصل عسکریت پسندی کی فنڈنگ کا آغاز تحریک طالبان پاکستان کی تشکیل کے ساتھ ہو چکا تھا۔ کراچی پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ فروری 2008ء میں ہی ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ کراچی سے اربوں روپے کا بھتہ فاٹا منتقل ہو رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ فروری میں انہوں نے ٹی ٹی پی کے کچھ لوگ پکڑے ان سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ کی ہدایت پر مختلف بینکوں، فیکٹریز، شو رومز میں چوکیداری سمیت چھوٹی موٹی نوکریاں حاصل کی گئیں۔ اس وقت لگ بھگ دوسو کے قریب لوگ بھرتی ہو چکے تھے۔ اس کے بعد باقاعدہ ٹی ٹی پی کراچی کا سیل تشکیل دیا گیا جس میں مصری حمزہ جوفی کے نام سے القاعدہ کے ایک بندے کی ذمہ داری تھی کہ وہ حاصل ہونے والی رقوم کو جنوبی وزیرستان پہنچانے کا بندوبست کرے۔
کراچی میں صنعتکاروں، تاجروں اور رئیل سٹیٹ ڈیولپر سے اربوں روپے وصول کیے گئے۔ حال ہی میں پی ٹی آئی حکومت میں اس کے کئی رہنماؤں سے نا صرف بھاری چندہ مانگا گیا بلکہ کئی بشمول سابق گورنر شاہ فرمان اور سابق وزیر اعلیٰ محمود خان کے بھائی کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی نے بھاری رقوم کی ادائیگی کے دعوے بھی کیے جن کی تردید متعلقہ شخصیات نے آج تک نہیں کی۔
اغواء برائے تاوان کس حد تک فنڈنگ کا ذریعہ رہا؟
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عسکریت پسند تنظیموں نے اغواء برائے تاوان کو بطور جنگی آلہ استعمال کیا۔ اس کو دو مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایک تو کسی اہم شخصیت کا اغواء کرکے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جاتا یا پھر تاوان کے لیے بھاری رقم طلب کی جاتی۔ 2008ء میں جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان کے بیچ میں رزمک سے سفر کرتے ہوئے ہمیں بتایا گیا کہ آفغانستان کے لیے سابق سفیر طارق عزیزالدین کو وہاں منتقل کردیا گیا ہے اور اس کی رہائی کے لیے ڈھائی ملین ڈالرز کا مطالبہ رکھا گیا ہے۔ بعد ازاں اسے رہائی ملی لیکن سرکاری سطح پر تاوان کی ادائیگی کی تصدیق آج تک نہیں کی جا سکی۔
افغانستان میں پاکستان کے سفیر طارق عزیز الدین کو فروری 2008 میں خیبرکے علاقے سے کابل جاتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا۔ ان کو مئی 2008 میں حکومت اور عسکریت پسند رہنما بیت اللہ محسود کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
اسی طرح پولینڈ سے تعلق رکھنے والے انجنیئر کو اغواء کرنے کے بعد ٹی ٹی پی درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے کمانڈر طارق آفریدی نے مطالبات پیش کیے۔ اس دوران مطالبات کے حوالے سے ان کی تنظیم سے میرا رابطہ ہوا تو مجھے بتایا گیا کہ انہوں نے اپنے چالیس ساتھیوں کی فہرست پیش کی ہے جو زیر حراست ہیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے انکار کے بعد سات فروری 2009ء کو اس کو قتل کردیا گیا۔ اس طرح 2011ء میں سابق گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کے اغواء کے بعد عسکریت پسند حلقوں سے معلوم ہوا کہ رہائی کے بدلے دو ارب روپے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
فلاحی تنظیموں اور عسکریت پسندی کا تعلق کیا ہے؟
افغان جنگ کے دنوں سے ہی عسکریت پسندی کے فنڈز کے لیے فلاحی تنظیموں کا استعمال عام رہا۔ خود عرب دنیا سے فنڈز کو اکٹھا کرنے کے لیے پشاور میں "مکتب الخدام” کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی۔ بعد ازاں سب سے زیادہ فنڈز روس کے خلاف اسی پلیٹ فارم سے اکھٹے کیے گئے۔ پاکستان میں اس کے بعد فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، الفرقان فاؤنڈیشن، الرحمٰن ویلفیئر ٹرسٹ جیسی درجنوں تنظیمیں نیکٹا کی جانب سے پابندی کا شکار اسی وجہ سے ہوئیں۔
دراصل یہ اربوں روپے مالیت کے ادارے تھے اس لیے "ہنڈی” یا "حوالہ” کے ذریعہ ان کا چلنا قریباً ناممکن تھا اس لیے ایف اے ٹی ایف کی نظروں میں آئے بغیر اس کی بینکنگ اور اکاؤنٹس کا چلنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ ایسے تمام تنظیموں کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیئے گئے۔2014ء میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد جب نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس طرح کی تنظیموں کے اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی کی گئی تو پانچ ہزار سے زائد اکاؤنٹس میں موجود تین سو ملین روپے منجمد کر دیئے گئے۔
لیکن ظاہری بات ہے کہ جوں جوں حکومت کی جانب سے سختیاں اور نگرانی بڑھتی ہے عسکریت پسند تنظیمیں بھی اپنے طریقہ کار میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ اب خلیجی ممالک، پاکستان، افغانستان اور دیگر ایشیائی مملک میں بڑی عسکریت پسند تنظیمیں مختلف کاروبار سے پیسے اکھٹے کر رہی ہے۔ ہنڈی کے خلاف لاکھ کامیاب کارروائیوں کے باوجود یہ طریقہ اب بھی رائج ہے۔ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک ایسے نیٹ ورک پر بھی ہاتھ ڈالا جو بٹ کوئن کے ذریعہ داعش کو فنڈز فراہم کر رہا تھا۔ معدینیات کی کانوں اور قیمتی پتھروں تک سے عسکریت پسند تنظیمیں کمائی کر رہی ہیں۔
ان فنڈز کو استعمال کس طرح کیا جاتا ہے؟
دراصل ان فنڈز کا ایک اچھا خاصہ حصہّ مختلف جیلوں میں قید ساتھیوں کے خاندانوں میں باقاعدہ بانٹا جاتا ہے جب کہ جو لوگ دوران جنگ مر جاتے ہیں کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے بیوی بچوں کو گزارے کی رقم فراہم کی جائے۔اس حوالے سے مختلف کاروائیوں کے دوران سیکیورٹی اداروں کو باقاعدہ فنڈز کے تقسیم کی فہرستیں بھی ملیں۔ اس کے علاوہ جنگ کے لیے سازوسامان جیسے بندوقیں، بارود، گاڑیاں وغیرہ خریدی جاتی ہیں۔ کچھ اخراجات اہداف کے مقررہ کیئے جاتے ہیں۔ مثلاً حملے کے لیے لاجسٹک اور سہولت کاروں کو جو رقم فراہم کی جاتی ہے وہ کافی بڑی رقم ہوتی ہے۔