January 09, 2025

Logo

نیوز فلیش : باجوڑ میں تحریک نفاذ شریعت محمدی ( تور پٹکی ): پس منظر ، ابتداء ، جنگ کے نقصانات اور اثرات افغان مہاجرین کی وطن واپسی؛ خدشات اور طالبان حکومت کے اقدامات

اسلام آباد پر داعش خراسان کی دستک، سکول کے طالب علم عسکریت پسند تنظیموں میں کیوں شامل ہو رہے ہیں؟

شائع | August 29,2023

افتخار فردوس , احسان اللہ ٹیپو محسود

اسلام آباد پر داعش خراسان کی دستک، سکول کے طالب علم عسکریت پسند تنظیموں میں کیوں شامل ہو رہے ہیں؟image

نوٹ :اس تحریر میں صحافتی اقدار اور قانونی پہلوئوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کچھ کرداروں کے نام تبدیل کیے گئے ہیں)۔

’ہم آ رہے ہیں۔‘ داعش خراسان کی جانب سے اپریل 2023ء میں جاری کیے گئے اس ویڈیو پیغام نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکام کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ اس ویڈیو پیغام میں اسلام آباد کے مرکز میں قائم دو اہم ترین مقامات سرینا ہوٹل اور پولیس سہولت مرکز کی فلم بندی کی گئی تھی۔

اس ویڈیو کی ریلیز کے بعد وفاقی دارالحکومت میں تھریٹ الرٹ بھی جاری کیا گیا جب کہ اسلام آباد کے پرسکون ماحول میں رہنے والی سفارتی برادری کا پریشان ہونا بھی فطری تھا، جنہیں ملکی سرحد پر ہونے والی پر تشدد کارروائیوں سے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ یہ غیر ملکی سفارت کار اب داعش خراسان کی پاکستان کے مرکز میں حیرت انگیز موجودگی پر پریشان تھے۔

خراسان ڈائری نے اس حوالے سے ابتدا میں کی جانے والی حیران کن تفتیش کو یکجا کرتے ہوئے، جس تک خراسان ڈائری کو خاص طور پر رسائی دی گئی تھی، یہ کہانی قلم بند کی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی نوعیت کے سب سے منفرد کیس کی گتھی کو سلجھانے کا آغاز کیا تو وفاقی دارالحکومت کے کچھ نمایاں ترین تعلیمی اداروں کے طالب علم اس پوری سرگرمی میں سرگرم دکھائی دیے۔ یہ نوجوان داعش خراسان کو نہ صرف معلومات فراہم کیا کرتے تھے بلکہ اس گروہ کی جانب سے مختلف سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔

مئی 2023ء کی ایک سنسان اور گرم دوپہر کو اسلام آباد میں درجن بھر گاڑیاں پوش علاقے کے ایک گھر کے باہر آ کر رُکیں۔ اس پریشان کن منظر کے باعث رہائشیوں کا پریشان ہونا فطری تھا جب آنکھوں پر پٹی باندھ کر 19  سالہ حمزہ کو سیکیورٹی اہل کاروں کے خصار میں گھر سے باہر لایا گیا تب ایک آواز ہوا کے دوش پر بلند ہوئی، ’کیا تم سلفی مدنی ہو؟‘ حمزہ کے اہلخانہ کو صرف یہ ایک فقرہ ہی یاد رہ سکا تھا۔

سیکیورٹی اہل کار یہ امید کر رہے تھے کہ ان کا کسی بدنام زمانہ دہشت گرد سے سامنا ہونے جا رہا ہے مگر انہوں نے ایک نوجوان کو دیکھا۔ مئی کی گرمی میں حمزہ نے کپکپاتی ہوئی آواز میں اپنے سلفی مدنی ہونے کی تصدیق کی تو ماحول میں معنی خیز خاموشی چھا گئی۔ سیکیورٹی اداروں نے اس نوجوان کو فوراَ اپنی تحویل میں لے لیا اور وہ وہاں سے روانہ ہو گئے اور وہ کچھ ہی دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

ایک سویلین تحقیقاتی ادارے کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر، کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، بتایا کہ اس لڑکے کا سراغ  اسلام آباد کے سرینا ہوٹل کی ویڈیو کی عکس بندی کرتے ہوئے اردگرد مختلف مقامات پر نصب سی سی ٹی وی فوٹیجز کے تجزیے، جیو فینسنگ اور فرانزک جانچ کے تجزیے سے لگایا گیا تھا، جس سے اس کے ٹھکانے تک رسائی بھی ممکن ہو سکی۔

اس اعلیٰ افسر نے مزید بتایا کہ لڑکے کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے اس کی جاسوسی بھی کی گئی اور یوں اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نےتقریباً تین ہفتوں کی تفتیش کے بعد حمزہ کے نیٹ ورک کا کامیابی سے پتہ چلایا جو  امریکہ، ہنگری، جرمنی اور کینیڈا تک پھیلا ہوا تھا۔

اپریل میں جاری ہونے والی اس ویڈیو کے توسط سے پاکستان پر ایک طویل جنگ مسلط کرنے کی دھمکی دی گئی تھی، جس میں ملک کے سماجی، معاشی اور سیاسی منظر نامے کو بالخصوص نشانہ بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اس ویڈیو میں دی گئی دھمکی میں اپنا پیغام پہنچانے کے لیے مختلف بیانیوں کو یکجا کیا گیا تھا اور سابق وزرائے اعظم عمران خان اور شہباز شریف، سینیٹرز اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری سمیت حملوں کے ممکنہ اہداف کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا۔

مزید برأں، اس ویڈیو میں پاکستان کے ہمسایہ ملکوں اور خاص طور پر افغانستان، روس اور چین کے ساتھ سفارتی تعلقات پر بھی بات کی گئی تھی اور پاک چین اقتصادی راہداری اور چینی اہداف کو گروہ کی جانب سے ممکنہ اہداف کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ اس سے گروہ کی حکمتِ عملی واضح ہوتی ہے جو دہشت گردی کی ایسی ہی سرگرمیاں افغانستان میں انجام دے چکا ہے جہاں داعش خراسان نے غیرملکی شہریوں کو نشانہ بنایا جب کہ روس، پاکستان اور چین کے شہریوں کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں کیں۔

حمزہ ایروسپیس انجینئرنگ کا طالب علم ہے جو اپنے پورے تعلیمی سفر میں اعلیٰ گریڈز حاصل کرتا رہا ہے جس کے باعث کچھ اہم سوالوں کا پیدا ہونا لازمی تھا۔ وہ تیراکی اور باسکٹ بال کھیلنے کا شوق رکھتا تھا اور اپنے لیپ ٹاپ پر زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کا عادی تھا مگر اس کے باوجود اس کی سرگرمیوں کی حقیقی نوعیت معمہ بنی رہی۔ اس کے حوالے سے قیاس آرائیاں اس کی تخلیق کردہ میم، ایک خفیہ ٹویٹ یا ممکنہ طور پر سیاسی طور پر طنزیہ بحٹ میں حصہ لینے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگوں نے اس حوالے سے حیرت کا اظہار بھی کیا کہ کیا اس کی سرگرمیاں اس کے ذاتی معاملات سے منسلک تھیں یا اس کا تعلق غالباً اس کے رومانوی تعلقات سے تھا؟ اس پہیلی نے سب کو الجھا دیا، اور اس کے سکول کے چند قریبی دوست اور کچھ اساتذہ ہی اس کی زندگی کے بارے میں کچھ معلومات رکھتے تھے۔

حمزہ سے اگلے تین ماہ کے دوران کی جانے والی تفتیش سے حیران کن انکشافات سامنے آئے۔ ان سب کا آغاز ایک مذاق سے ہوا: یہ ان دنوں کی بات ہے جب عالمی وبا کورونا کے باعث ملک میں لاک ڈائون لگا ہوا تھا اور تمام تعلیمی سرگرمیاں آن لائن منتقل ہو چکی تھیں۔ اس وقت بہت سے نوجوانوں نے، جن میں حمزہ بھی شامل ہے، وقت گزارنے اور بوریت ختم کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا اضافی استعمال شروع کیا۔
 
حمزہ نے خراسان ڈائری سے بات کرتے ہوئے کہاکہ میری ہمیشہ ڈیجیٹل میڈیا میں دلچسپی رہی تھی اور میں عموماً ایڈیٹنگ ٹولز استعمال کیا کرتا تھا۔ حمزہ کا ان دنوں ہی ایک تنظیم داعش خراسان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ ”جہادی اسپیکٹ” سے تعارف ہوا۔ اس اکائونٹ کے 30 ہزار سے زیادہ فالوورز تھے اور اس گروپ میں داعش (مرکزی) سے متعلق میمز اور ویڈیوز شیئر کی جاتی تھیں۔

اس اکاؤنٹ پر اَپ لوڈ کی جانے والی زیادہ تر ویڈیوز شام اور عراق سے متعلق تھیں جو بالخصوص داعش (مرکزی) سے تعلق رکھتی تھیں۔ بہترین ایچ ڈی کی حامل،  سینیما کے انداز کی ایڈیٹنگ اور پس منظر میں مغربی موسیقی کے باعث ایسی ویڈیوز آڈینئس اور بالخصوص نوجوان نسل کو اپنی جانب متوجہ کرتی تھیں۔

حمزہ نے  کچھ ہی وقت میں دو درجن سے زیادہ ویڈیوز دیکھ لیں اور وہ ساتھ ساتھ ان کو لائیک بھی کرتا رہا۔  اسی دوران اس کی توجہ اچانک ویڈیو کے اختتام پر ایک مخصوص لوگو پر مرکوز ہو گئی جو وہ اس سے قبل کہیں پر دیکھ چکا تھا۔

اس نے اس بارے میں مزید جاننے کی جستجو کی تو اس پر یہ انکشاف ہوا کہ یہ لوگو مصنوعی ذہانت کے حامل ایک ایڈیٹنگ سافٹ وئیر کیپ کٹ کا ہے اور نوجوانوں میں ویڈیوز کی ایڈیٹنگ اور گرافک ڈیزائننگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ اتفاق ہی تھا کہ حمزہ خود بھی کیپ کٹ ٹول استعمال کیا کرتا تھا۔ اس نے گفتگو شروع کرنے کے لیے ایک پوسٹ پر کیپ کٹ کے حوالے سے سوال کیا۔ کچھ سوالات اور ان کے جوابات کے تبادلے کے بعد، اس کا اکائونٹ کے ایڈمین کے ساتھ پرائیویٹ میسیجر پر رابطہ ہو گیا اور اس نے ایڈیٹنگ سافٹ ویئر کے بارے میں مزید سوالات کیے۔

حمزہ کو ابتدائی تعارف کے بعد انسٹا گرام کے ایک نجی گروپ ’کلوزڈ ونز‘ میں شامل کر لیا گیا۔ گروپ کے ارکان کی بڑی تعداد ٹین ایجرز پر مشتمل تھی اور اس کے حیران طور پر تقریباَ 15 سو کے قریب فالوورز تھے۔ گروپ میں رہتے ہوئے یہ نوجوان جب بحث کر رہے ہوتے تو مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جاتے اور خاص طور پر جب اس گفتگو کا تعلق مختلف عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمتِ عملیوں سے متعلق ہوتا۔

وہ گروپ میں اپنی پہچان جہادی گروہوں سے اپنی وابستگی یا ان کے حوالے سے اپنی پسندیدگی سے کرواتے تھے۔ وہ گفتگو کے دوران ایک دوسرے سے بحث کرتے اور دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں میں بسااوقات ایک دوسرے کی حکمت عملیوں کی تعریف بھی کرتے۔

اسی گروپ میں ’ٹیک ایکسپرٹ‘ کے نام سے ایک اکاؤنٹ تھا جو تازہ ترین مواد اور پرانے آرکائیوز پر مشتمل حال ہی میں تخلیق کردہ مختلف ویب سائٹس گروپ میں شیئر کرتا رہتا۔

یہ اکاؤنٹ ایک عراقی شہری کا تھا جب کہ گروپ میں شام کے شہری بھی شامل تھے جو عربی زبان میں بات چیت کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے مختلف طرح کا مواد بھی شیئر کرتے جن میں تربیتی مینول، ایڈیٹنگ کے ٹولز اور جہادی لٹریچر شامل تھا۔ اس آن لائن ’دوستی‘ کو مزید گہرا کرنے کے لیے نئے شامل کیے گئے لڑکوں کو گپ شپ لگانے کے لیے آن لائن گیمنگ کے میدان میں بھی لے جایا جاتا تھا جہاں وہ ایک دوسرے سے زیادہ آزادانہ اور بے تکلفانہ انداز سے بات چیت کر سکتے تھے۔ ان آن لائن گیمز میں تین سب سے نمایاں گیمز  وولف اینسٹائین، کال آف ڈیوٹی اور اسیسنز کریڈ شامل تھیں۔

اسلامی شدت پسندی کے میدان میں جہاں متعدد عسکریت پسند گروہ نئے اراکین کو شکار کرنے کی جستجو میں تھے، حمزہ نے یہ مشاہدہ کیا کہ داعش کا پروپیگنڈا دیگر جہادی تنظیموں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ قابلِ قبول ہے جو تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہدف بناتا ہے۔ ان کے گروپ میں آپ تجاویز دے سکتے تھے، یہ احتراع ساز تھا اور آپ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھتا تھا۔ دوسری طرف القاعدہ کیمپ نے خود کو زیادہ سنجیدہ، کم لچکدار اور زیادہ لوگوں کو قبول نہ کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کی۔

ان تنظیموں کی جانب سے مختلف ملکوں میں رہنے والے  نئے ارکان کو کئی کام ایسے بھی سونپے جاتے تھے جو ان نوجوان کی لسانی مہارت، ملک، مقامی معلومات اور ٹیکنالوجی میں دلچسپی کے حوالے سے ہوتے تھے۔

حمزہ نے کینیڈا اور جرمنی میں مقیم تنظیم کے چند ارکان کے نام یاد کیے جو کوئی بھی سرگرمی انجام دینے کے تناظر میں دوسرے سے زیادہ سرگرم تھے جن میں احمد علی اور ولی محمد شامل ہیں، جو ترجمے کے علاوہ ٹیکنالوجی کا استعمال میں ماہر تھے۔ یہ دونوں بہت سے دوسرے نوجوان ریکروٹس کو متاثر کرنے اور ان کی بھرتی کا محرک ثابت ہوئے۔

یہ نوجوان زیادہ تر ترجمے کے کام میں مصروف رہتے تھے۔ یہ تحریروں کو جرمن زبان سے انگریزی میں اور انگریزی سے جرمن زبان میں ترجمہ کرتے، جب کہ ایک بڑا حصہ عربی زبان میں بھی ترجمہ کیا جاتا۔ ان میں سے زیادہ تر نوجوان بہت زیادہ کتابیں یا علمی مواد پڑھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اس کے بجائے یہ نوجوان آن لائن گیمنگ کی جانب متوجہ ہوئے جہاں خیالی دنیا حقیقی دنیا کی دشمنیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ نوجوان ایک ٹیم کے طور پر متحد ہو کر اپنے ان خیالی دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے۔

حمزہ کی بات ان دنوں ہی ایک امیر عرب شہری عبداللہ سے ہوئی جو نئے آنے والے ریکروٹس کی آن لائن مالیاتی ٹرانزیکشن کے ذریعے مدد کرتا تھا اور ایڈیٹنگ اور مواد کے ترجمے سے متعلق زیادہ اہم ذمہ داریاں سونپا کرتا تھا۔ عبداللہ
سے متعارف ہونے اور بات چیت کرنے کے آٹھ ماہ بعد حمزہ کو ایک پرائیویٹ ٹیلی گرام چینل میں شامل کر لیا گیا۔
 
ٹیلی گرام انسٹنٹ میسیجنگ کی ایک کلائوڈ بیسڈ ایپ ہے جو صارفین کو پیغامات، ملٹی میڈیا فائلیں بھیجنے اور صوتی اور ویڈیو کال کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ میسجنگ ایپ سیکیورٹی اور پرائیویسی کے فیچرز کے باعث مقبول ہے جیسے کہ پیغامات کے لیے اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن اور پیغام پڑھنے یا دیکھنے کے بعد یہ خودکار طور پر غائب ہو جاتے ہیں۔

اس ٹیلی گرام چینل کے پاس مختلف جہادی گروپوں کی متعدد ویڈیوز کا ایک ذخیرہ موجود تھا اور مختلف لوگوں سے مخصوص موضوعات پر نئی ویڈیوز بنانے کے لیے بھی کہا گیا تھا۔

حمزہ نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ عبداللہ چینل کا ایڈمن تھا جس میں صرف داعش خراسان ہی نہیں بلکہ القاعدہ کے کارکن بھی شامل تھے۔ ایک بار القاعدہ کے ارکان نے اسے اور دوسرے ارکان کو داعش خراسان چھوڑنے اور القاعدہ میں شامل ہونے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ایڈمن نے القاعدہ کے خلاف ٹھوس دلائل پیش کیے جس سے نوجوان القاعدہ کے جال میں نہیں پھنسے اور داعش کے حق میں پیش کیے گئے دلائل سے مطمئن ہو گئے۔

حمزہ نے چینل کے اراکین کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے پہلی بار دو پاکستانی ارکان، جو نئے بھرتی ہوئے تھے، سے بات کی، جنہوں نے اپنی شناخت عمران علی اور عامر طارق کے نام سے کروائی۔ انہوں نے تین ماہ تک بات چیت کرنے کے بعد اپنی شناخت ظاہر کی تھی۔ یہ دونوں راولپنڈی شہر کے ایک قصبے سے تعلق رکھتے تھے۔اس دوران حمزہ کو داعش خراسان نے کچھ ویڈیوز کی ایڈیٹنگ کرنے کے لیے کہا اور کسی بھی قسم کی موسیقی استعمال کرنے سے منع کیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حمزہ کی شخصیت میں واضح تبدیلی آنے لگی۔اس کے مذہبی عقائد تبدیل ہو گئے تھے کیوں کہ گروپس کے بہت سے لوگوں نے اس کے نام ’مدنی‘ کا مذاق اڑایا تھا اور سنی بریلوی مکتبہ فکر سے اس کی وابستگی کا ذکر کیا تھا۔

سلفی ازم کے بارے میں مزید جاننے کے لیے (جسے اسلام کی ایک شدت پسند شاخ تصور کیا جاتا ہے) اسے کئی ویڈیوز بھیجی گئیں کہ کس طرح نماز ادا کرنی ہے اور اپنی روزمرہ کی زندگی کو سلفی مکتبۂ فکر کے مطابق انجام دینا ہے۔اس وقت تک حمزہ نے داڑھی بڑھانا شروع کر دی تھی اور سلفی طریقے کے مطابق نماز کی ادائیگی بھی شروع کر دی تھی۔

اس کے نام کے ساتھ ایک نئے سابقے کا اضافہ ہو گیا اور وہ اپنی شناخت ’سلفی مدنی‘ کے نام سے کروانے لگا۔ جون 2022 تک أبوپیس (فرضی نام) نامی رکن نے حمزہ کو ایک مختلف ٹیلی گرام چینل ’فارمولا 1‘ سے متعارف کروایا جو داعش کی جانب سے منتظم کیا جا رہا ایک غیر معروف اکاؤنٹ تھا۔ اور یوں اَبوپیس حمزہ کو داعش خراسان سے متعارف کروانے میں کامیاب رہا۔

حمزہ نے دورانِ تفتیش یہ انکشاف کیا کہ اس کے بھرتی کرنے والے کی زیادہ توجہ اس کی پشتون ثقافت اور کمیونٹی کے اندرونی تنازعات پر مرکوز تھی۔ بھرتی کرنے والا عموماً پشتون قومی مسائل کے حتمی حل کے طور پر خلافت کے قیام کی وکالت کرتا تھا۔

حمزہ کو اس عرصے کے دوران طالبان کی کارروائیوں اور مظالم کی عکاسی کرنے والی متعدد ویڈیوز موصول ہوئیں جن کے حوالے سے یہ دلیل دی گئی کہ طالبان نے بے گناہ سلفیوں کو نشانہ بنایا، جس سے بھرتی کرنے والے کے بیانیے کو تقویت ملی۔

انہوں نے حمزہ کو اپنے دعوئوں کو درست کرنے کے لیے داعش کے متعدد مغربی فالوورز اور ارکان سے متعارف کروایا، جن میں سے کچھ مہاجرین بھی تھے جنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ افغانستان میں طالبان کے چنگل سے فرار ہو ئے ہیں۔ ان میں سے ایک صارم خراسانی بھی تھا جو امریکہ میں اپنی بیوہ ماں کے ساتھ مقیم تھا۔ صارم نے حمزہ کو افغانستان میں طالبان کے ظلم و بربریت کی داستانیں سنائیں۔

حمزہ ہنگری کے جارج اور کینیڈا میں مقیم أبو حسن سے بھی متعارف ہوا جو خیالی خلافت میں اس کے ساتھی بنے۔ انہوں نے حمزہ کو داعش کے حوالے سے رہنمائی اور تعاون فراہم کیا۔

جون 2022ء کے اوآخر میں حمزہ کو داعش خراسان کی جانب سے ویڈیو ایڈیٹنگ کی پہلی ذمہ داری دی گئی اور اس سے اس ویڈیو کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ بنانے کی درخواست کی گئی۔ ویڈیو میں جون 2022ء میں افغانستان میں ایک لویہ جرگہ میں خودکش حملہ آور کے حملے کو فلم بند کیا گیا تھا جس میں ایک عسکریت پسند بارودی مواد سے بھری ہوئی اپنی موٹر سائیکل طالبان کی چیک پوسٹ سے ٹکراتا ہے۔

حمزہ نے دل و جان لگا کر اس ویڈیو کی ایڈیٹنگ کی اور جب اس نے ویڈیو کی فائنل کاپی جمع کرائی تو اس کی زبردست ستائش کی گئی۔ حمزہ کے بقول، جب اس ویڈیو کو جاری کیا گیا اور اس کی تعریف کی گئی تو اسے خود پر غیرمعمولی فخر محسوس ہوا۔

حمزہ نے اپنی زندگی کی محرومیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میرے جیون میں بالآخر کچھ اچھا ہو رہا تھا۔ میں نے ایک کامیابی حاصل کی تھی۔ میں نے پوری زندگی یہ مقصد پانے کے لیے جدوجہد اور محنت کی تھی۔ میں نے اس قدر محنت کبھی نہیں کی تھی۔ میرے والد مجھے مارتے تھے اور تنہائی میں رکھتے تھے۔ میری والدہ پر میرے سامنے کئی بار تشدد کیا گیا اور ہمیں اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں بھی نقصان برداشت کرنا پڑا، جو ایک سال جاری رہنے والی عدالتی کارروائی کے دوران مجھ پر میرے ہی والد کی موت کا الزام عائد کرتے رہے۔ میرے والد کے پراسرار قتل کے بعد قریبی رشتہ دار مہینوں تک ہمیں پولیس اسٹیشنوں اور عدالتوں میں گھسیٹتے رہے تاکہ ہمیں اپنی خاندانی جائیداد ان کے حوالے کرنے پر مجبور کیا جائے کیونکہ میں اپنے خاندان میں واحد مرد بچا تھا۔ یہ اب میرا وقت تھا اور میں دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میں درست تھا۔

نوجوان طالب علم کا داعش خراسان کی پشتو زبان میں شائع ہونے والی اہم ترین پبلیکشن ’دی خراسان گھاگ‘ سے تعارف کروایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ وہ مضامین پڑھے اور انہیں دوبارہ لکھے۔ اس کی انگریزی زبان کے میگزین میں لکھنے کے لیے بھی حوصلہ افزائی کی گئی۔

حمزہ کا اس عرصے کے دوران داعش خراسان سے رابطہ کافی کم ہو گیا۔ پیغامات کو پہنچنے میں کبھی کبھار تقریباً ایک مہینہ بھی لگ جاتا تھا۔ اور حمزہ کی تب ہی ملا غازی سے بات چیت شروع ہوئی جو ہندوستان میں مقیم میڈیکل کا طالب علم تھا اور تنظیم کے اہم ترین انگریزی جریدے ’وائس آف خراسان‘ کی ذمہ داری سنبھالتا تھا۔

حمزہ نے انگریزی ایڈیشن کے لیے ایک مضمون لکھا۔ تاہم، حمزہ سے ایک سنجیدہ نوعیت کی غلطی یہ ہوئی کہ اس نے اپنی تحریر میں وکی پیڈیا سے تمام مواد کو لے کر استعمال کیا جسے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شائع کرنے سے انکار کر دیا گیا کیوں کہ تنظیم نے خصوصی طور پر اصل مواد کو لکھنے اور بھیجنے کی ہدایت کی تھی جس کے باعث حمزہ کا مضمون شائع ہونے سے رہ گیا۔

حمزہ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’میری تحقیق رائیگاں گئی۔میں اپنی گرل فرینڈز تک کو یہ بتا چکا تھا کہ میں داعش کے لیے ویڈیوز اور مضامین شائع کر رہا ہوں اور داعش کے میڈیا کی ذمہ داری سنبھالتا ہوں۔ وہ جہادی تنظیم کے مواد پر میرے کنٹرول سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں۔چنانچہ جب میرا مضمون آن لائن شائع نہیں ہوا تو میں بہت زیادہ مایوس ہوا۔‘

حمزہ کے بقول، ان کے تقریباً تمام ہم جماعت اور کالج میں بہت سے ساتھی اس حقیقت سے واقف تھی کہ وہ داعش خراسان کے لیے مواد کی ایڈیٹنگ اور نشر و اشاعت کا کام کرتے ہیں اور یہ علم بھی رکھتے تھے کہ حمزہ تنظیم کے ساتھ مستقل رابطے میں رہتا تھا۔ باعثِ حیرت اَمر یہ ہے کہ اس کے ہم جماعت اور اساتذہ بھی اس کی ان سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتے تھے اور انہوں نے اسے ان سے باز رہنے کے لیے کبھی خبردار نہیں کیا۔ چنانچہ حمزہ کے خلاف اس کے تعلیمی ادارے میں ایک بھی شکایت درج نہیں کروائی گئی۔

حمزہ نے اس وقت تک اپنے قریبی دوستوں اور حتیٰ کہ اپنی گرل فرینڈز تک کو داعش خراسان کے نظریے کا پرچار کرنا شروع کر دیا تھا جو اس کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ تھے اور ان میں حصہ بھی لیتے تھے۔

حمزہ نے اپنے دوستوں کو داعش خراسان کے نظریات قبول کرنے پر زور دیا اور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے داعش کے نئے خلیفہ سے وفاداری کا حلف اٹھائے جانے کی ویڈیو بھی بنائی اور یہ حلف مارگلہ کی پہاڑیوں کے مسحور کن پس منظر میں اٹھایا گیا جس میں داعش خراسان کا پرچم بھی نظر آ رہا ہے۔

حمزہ نے اس عرصے کے دوران داعش کی آپریشنل سرگرمیوں کے بارے میں علم حاصل کر لیا تھا۔ اس نے اگرچہ داعش خراسان کے کسی رُکن سے ذاتی طور پر ملاقات نہیں کی تھی لیکن اس سے افغانستان کا سفر کرنے کی متعدد بار درخواست کی گئی تھی اور افغانستان کا دورہ کرنے کے حوالے سے کچھ مخصوص ہدایات بھی دی گئی تھیں۔

حمزہ نے اگرچہ اس بات کی تردید کی کہ اس نے کبھی کسی انسان کو جسمانی تشدد یا نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کی ہے، تاہم تحقیقاتی اداروں نے اس کے آلات سے دستی بم بنانے کا سامان برآمد کیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے کی کیمسٹری لیب میں اپنے ایک استاد کے ساتھ مل کر بم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

فروری 2023ء میں حمزہ کو داعش خراسان کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں حمزہ کو پاکستان کے بارے میں ایک پُراثر ویڈیو بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی کیوں کہ افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں گروپ کا اثر و رسوخ نمایاں طور پر کم ہو چکا تھا۔

حمزہ کو اسٹوری بورڈ کے بجائے محض ایک اسکرپٹ بھیجا گیا جس میں یہ تفصیل موجود تھی کہ ویڈیو میں کیا ہونا چاہئے اور پاکستان میں اس کا گہرا اثر ہو کیوں کہ داعش خراسان کا افغانستان اور پاکستان میں اثر و رسوخ نمایاں طور پر کم ہو چکا تھا۔

حمزہ اگرچہ ویڈیو پر کام کر رہا تھا  لیکن اس کے ہینڈلرز نے اس پر کام جلد از جلد ختم کرنے کے لیے زور ڈالا۔ تاہم، وہ جب 21 دن گزر جانے کے باوجود ویڈیو نہ بنا سکا تو اس کو یہ پیغام موصول ہوا کہ ڈیڈ لائن پر کام مکمل نہ کرنے کے باعث آئندہ اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھا جائے گا۔

حمزہ کو یہ پیغام رمضان کے مہینے میں ملا اور اس وقت وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شہر کی سڑکوں پر آوارہ گردی کر رہا تھا اور سڑک کنارے ایک ڈھابے پر چائے اور دیگر لوازمات سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔

حمزہ جب گاڑی میں سوار ہوا تو اس نے فوری طور پر داعش خراسان کی ویڈیو پر کام مکمل کرنے اور اسلام آباد میں اس کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی ٹھان لی۔ یہ اہم تھا کہ تصاویر کے لیے شہر کے معروف مقامات کا انتخاب کیا جائے تاکہ نہ صرف گروہ کی موجودگی ظاہر ہو بلکہ ریاست کو  بھی خطرہ محسوس ہو۔

اس نے رات کی تاریکی میں اسلام آباد میں پولیس سہولت مرکز کی نشاندہی کی اور اس کی تصویر کھینچی جو بہت زیادہ دھندلی تھی۔ اس لیے اس نے اپنے دوستوں کو پولیس سہولت مرکز کی صاف تصویر لینے کے لیے گاڑی کو واپس موڑنے کا کہا اور جب وہ تیراکی کے لیے سرینا ہوٹل کی جانب بڑھے تو انہوں نے دیکھا کہ ہوٹل کے لوگو کی روشنی سے عمارت جگمگ کر رہی ہے۔

حمزہ نے اسے ایک موزوں شاٹ کے طور پر دیکھتے ہوئے 14 منٹ کا ایک کلپ ریکارڈ کیا جس کے پس منظر میں اپنے دوستوں کی آوازوں کو بھی ریکارڈ کر لیا۔ اس نے پرمزاح انداز میں خواتین کی آوازوں کی نقل کرتے ہوئے داعش کے ساتھیوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے محض ایک نوعمر کے لڑکپن کے مذاق کے طور پر دیکھا جائے۔

یہ ویڈیو جب داعش کے مختلف چینلز پر جاری کی گئی تو اس نے اسلام آباد کے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کھلبلی مچا دی اور فوری طور پر مشترکہ تحقیقات کا آغاز کیا گیا جس کی قیادت اسلام آباد پولیس نے کی۔ شہر کی سیکورٹی بڑھانے کے علاوہ سڑکوں پر گشت میں اضافے کے ساتھ ساتھ دارالحکومت کے اہم مقامات اور تنصیبات پر پولیس نفری بڑھا دی گئی۔

اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل اکبر ناصر خان نے خراسان ڈائری سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ویڈیو جیسے ہی آن لائن جاری کی گئی، اس نے میری اور میرے محکمے کی سوچ تبدیل کر دی۔ خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر دو محاذوں پر اقدامات کیے گئے۔ شرپسندوں کو گرفتار کرنے کے لیے تفتیش کا آغاز کیا گیا اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر شہر کی نگرانی بڑھا دی گئی۔ اسلام آباد پولیس ہمیشہ ایسے واقعات کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے اور اس طرح کے کسی بھی خطرے کا بروقت مقابلہ کرنے کے لیے فوری کارروائی کرتی ہے۔‘

کئی ہفتوں بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جب اسلام آباد کی ان مخصوص سڑکوں سے سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کیں تو صرف چند گاڑیاں ہی نظر آ رہی تھیں اور ان میں سے ایک گاڑی حمزہ اور اس کے دوستوں کی گاڑی سے ملتی جلتی تھی اور اس کی اس سڑک پر آمدو رفت کا وقت بھی داعش خراسان کی ویڈیو کے وقت سے ملتا تھا۔

خطے میں مختلف عسکریت پسند تنظیموں کے زیر حراست عسکریت پسندوں کے متعدد انٹرویوز سے ایک نیا رجحان ابھرا ہے۔ جہادیوں کی نوجوان نسل نظریاتی طور پر بہت زیادہ یکسو نہیں ہے اور مختلف عوامل جیسے کہ شناخت کے بحران، منقسم خاندانوں اور مواقع کی کمی کا سامنا کر رہی ہے۔

ان زیر حراست نوجوانوں کی نمایاں تعداد کا تعلق پاکستان بھر کے نجی تعلیمی اداروں سے ہے جن کے متذکرہ بالا ذاتی مسائل انہیں جہادیوں کی جانب راغب کرتے ہیں۔ داعش خراسان جیسی تنظیموں کے قائم ہونے سے مذہبی مدارس سے بھرتیوں کا روایتی رجحان تبدیل ہو رہا ہے۔ اس سے قبل پاکستان کے نجی اسکولوں کے طالب علموں، جو حکومت کے زیر انتظام سرکاری سکولوں یا دینی مدارس سے زیادہ وسائل رکھتے ہیں، کو مذہبی تنظیموں اور قوم پرست عسکریت پسند گروہوں میں شامل ہوتے ہوئے دیکھا جا چکا ہے جس کی وجہ ان سکولوں کے اساتذہ اور بچوں کے والدین کی جانب سے ان کی مناسب نگرانی کا نہ کیا جانا ہے۔

حمزہ نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’میں جو کچھ کر رہا تھا اس سے مجھے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ میرے لیے یہ ابتدائی طور پر نوعمری کی ایک مہم جوئی تھی۔ میرے والد عدالتی مقدمات اور خاندانی مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ والدہ ایک روایتی گھریلو خاتون تھیں جو برسوں سے میرے والد کی جسمانی اور زبانی تشدد کا سامنا کر رہی تھیں۔ میرے اساتذہ اور سکول کے دوستوں کو میری سرگرمیوں کے بارے میں معلوم تھا لیکن وہ مجھے روکنے کی بجائے ان سرگرمیوں سے متاثر ہو رہے تھے جو میَں پروڈیوس کر رہا تھا۔‘

داعش اپنے غیر تنظیمی حامی (مناسرین) چینلز کے ذریعے آن لائن پروپیگنڈا مواد کی تشہیر پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور یہ ابتدا سے ہی داعش کی ایک اہم حکمتِ عملی رہی ہے۔ داعش خراسان پراپیگنڈا کرنے کے تناظر میں تنظیم کی عراق اور شام کی شاخ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

داعش خراسان کے ترجمان ادارے کا نام العزائم فاؤنڈیشن ہے، جو میڈیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، لسانی صلاحیتوں، اور بصری اور صوتی مصنوعات کے تنوع کو وسعت دے رہا ہے، مناصرین (حامیوں) کے چینلوں کی ایک بڑی تعداد داعش خراسان کے مواد کو آن لائن پھیلاتی ہے اور داعش خراسان کی مختلف طرح کی آڈینس کو مدِنظر رکھتے ہوئے مواد تخلیق کرتی ہے۔

انہی وجوہات کی بنا پر غیر رسمی میڈیا کے اداروں کی ایک بڑی تعداد آن لائن دکھائی دے رہی ہے لیکن سب سے زیادہ متاثر کن پلیٹ فارمز اب بھی ٹیلیگرام اور فیس بک ہیں اور ان کے علاوہ میٹرکس، ہوپ اور ایلیمنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر شیئر کیے جانے والے مواد کا انحصار آڈینس اور بیانیے کی تخلیق پر ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ العزائم فاؤنڈیشن نے 12 سے زیادہ زبانوں کا احاطہ کرنے کے لیے اپنے لسانی مواد کو وسعت دی ہے جب کہ ایک معاون اور مددگار میڈیا بھی تیار کیا گیا ہے۔ تاجک اور فارسی/دری زبانوں میں سب سے بہتر میڈیا مراکز موجود ہیں جب کہ داعش خراسان کے بیانیوں کو پھیلانے کے لیے متعدد نئے چینل قائم کیے جا رہے ہیں۔ مزیدبرأں، داعش خراساں چندے کی وصولی کے لیے حامیوں سے رابطہ رکھتی ہے جن سے یہ کہہ کر چندہ وصول کیا جاتا ہے کہ داعش کے شام کے الہلول کیمپ میں نظربند خاندانوں کی فلاح کے لیے یہ سرگرمی انجام دی جا رہی ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ آن لائن بھرتی کے عمل کا پتہ لگانا مشکل ہے کیوں کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین اپنی شناخت ظاہر کرنے کے باب میں محتاط رہتے ہیں۔ ایسی بات چیت بسا اوقات نجی طور پر انکرپٹڈ طریقے سے ہوتی ہے اور داعش خراسان کی میڈیا ٹیم ان ارکان کی کڑی نگرانی کرتی ہے جو حملوں کے لیے افغانستان ہجرت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ داعش خراسان کے نئے ارکان کو عموماً تربیت کی فراہمی، ہجرت اور حملوں کے لیے تیار کرنے سے قبل آن لائن پروپیگنڈا کرنے کے نظام کو منتظم کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔