اٹھارہ جون 2004 کو پاکستان کے قبائلی اضلاع سے آنے والی خبر، جسکی سرخی تھی کہ پاکستانی طالبان کمانڈر نیک محمد وزیرجنوبی وزیرستان میں ایک میزائل حملے میں مارے گئے ہیں ، نے میڈیا سمیت پورے خطے کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا۔
کچھ مقامی صحافیوں کے مطابق یہ میزائل حملہ تھا، لیکن انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق یہ امریکہ کا پاکستان کے اندر پہلا کامیاب ڈرون حملہ تھا۔ بعد ازاں یکم دسمبر 2005ء کو پاکستان دوبارہ سے بین الاقوامی سطح پر ہیڈلائنز میں تھا اور خبر تھی کہ پاکستان کے قبائلی اضلاع اور اس وقت کے فاٹا کے علاقے شمالی وزیرستان میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن، اس کے نائب ڈاکٹر ایمن الظواہری کے بعد تیسرے نمبر کے سرکردہ رہنما ابوحمزہ ربیعہ مارے گئے ہیں۔ اور تب بھی ملکی ذرائع اس کی ہلاکت کو ایک آپریشن کا نتیجہ قرار دیتے رہے۔
لیکن چند روز بعد حیات اللہ داوڑ نامی صحافی کی ایک تصویر غیر ملکی ادارے نے نشر کی جس میں حیات اللہ ایک میزائل کا ٹکڑا اٹھائے ہوئے تھے جو حمزہ ربیعہ کی ہلاکت میں استعمال ہوا۔ اس میزائل کے ٹکڑے پر میڈ ان یو ایس اے اور امریکی فوجی نشان واضح تھے۔ اس کے بعد پاکستان میں ڈرون ٹیکنالوجی کا استعما ل کوئی خفیہ خبر نہ رہی اور نیک محمد سمیت پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے والے کئی بڑے طالبان لیڈر بشمول بیت اللہ، حکیم اللہ اور فضل اللہ اسی طرح ڈرون کا نشانہ بنے۔
پاکستان میں پہلے امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بننے والا نیک محمد وزیر آخر کون تھا؟ اور امریکہ نے اس کو نشانہ کیوں بنایا؟ آج اس امریکی ڈرون حملے کو ہوئے انیس سال گزر گئے ہیں اور پاکستان کے حالات بہت مختلف ہیں۔
پاکستانی طالبان میں کمانڈر نیک محمد وزیر واحد ایک ایسا کمانڈر رہا ہے جس نے پاکستانی فوج کے خلاف سخت مسلح مزاحمت کی اور اس کے مقامی قبائل نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ نیک محمد کی لڑائی اپنے علاقے اورمہمانوں کے لئے تھی ۔ اپنے مقاصد کے لئے انہوں نے عام عوام کو نشانہ نہیں بنایا۔ان کے سامنے مقصد افغانستان میں امریکہ سے لڑائی تھی نہ کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ۔ جنوبی وزیرستان کے وزیر قبائل کا علاقہ اعظم ورسک افغانستان میں امریکی آمد کے دوسرے سال میں اس وقت خبروں میں آیا جب یہاں سے کچھ عرب اور ترکمن مجاہدین کی گرفتاری عمل میں لائی گئی حالانکہ ان کے پاس پاسپورٹ بھی تھے اور باقاعدہ پاکستانی ویزا بھی تھا۔
اس آپریشن میں کچھ لوگ ہلاک بھی ہوئے تھے۔ پاکستانی حکام کے مطابق یہ وہ القاعدہ جنگجو تھے جو افغانستان میں پسپائی کے بعد پاکستان آئے تھے۔ ان میں قاری طاہر یلداشیف کی تنظیم بھی تھی اور کمانڈر نیک محمد جب افغانستان میں لڑ رہے تھے تو قاری یلدشیف بھی ان کے دوستوں میں شامل ہو گئے۔ میں مارچ 2004 میں اپنے نامور صحافی برادرم اسماعیل خان کے ہمراہ ایک لمبی مسافت طے کرکے جنوبی وزیرستان کے ہیڈکوارٹرزوانا پہنچا۔
معروف فوٹو گرافرعبدالمجید گورایہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ہم ایف سی کیمپ میں ٹھہرے اور ہمارے میزبان اسماعیل خان کے قریبی دوست اور سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان تھے جو اس وقت جنوبی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ تھے۔ احمد زئی وزیر اپنے علاقے میں فوج کی آمد کے خلاف تھے اور ساتھ ہی وہ ان لوگوں کی حوالگی پر تیار بھی نہیں تھے جن کو انہوں نے پناہ دی تھی یعنی جو غیر ملکی مجاہدین تھے۔
ہم نےوانا بازار کے تین دن چکر اسی امید میں لگائے کہ شاید نیک محمد سے ملاقات ہو جائے کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اکثر وہ بازار کے چکر لگاتے ہیں اگرچہ ایف سی سڑک پر موجود تھی لیکن نیک محمد چیک پوسٹ کے ساتھ کچے راستے سے بازار آتے جاتے تھے لیکن ملاقات نہ ہو سکی۔ تین دن گزارنے کے بعد ہماری واپسی ہوئی ساری راتیں ہم نے جاگ کر گزاریں کیونکہ ہمیں بتایا جاتا رہا کہ شاید آج کی شب آپریشن کیا جائے۔
نیک محمد اور ان کے ساتھیوں نے انتظامیہ کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ انتظامیہ نے ان کی معلومات حاصل کرنے کے لئے سروسز دینے والے کئی محکموں کے اہلکار بھجوائے تاہم کمانڈر نیک محمد اور ان کے ساتھیوں کی اصل طاقت معلوم نہ ہو سکی۔ ہماری واپسی کے دو دن بعد 16 مارچ کو وانا کے قریبی علاقے قالوشہ میں حکومت نے آپریشن کا آغاز کیا اس سے قبل حکومت اور انتظامیہ احمد زئی وزیر قبائل کی شاخ یارگل خیل پر کئی پابندیاں عائد کر چکی تھی۔ ان کے گھر بھی مسمار کئے گئے-
حتیٰ کہ بندوبستی علاقوں میں احمد زئی وزیر خصوصاً یارگل خیل وزیر کے کاروباری مراکز کو بند کیا گیا۔ فوج کی آمد سے لوگ ویسے بھی غصے میں تھے جب آپریشن ہوا تو حکومت اور انتظامیہ کے تمام تر دعوے غلط نکلے۔ اس روز فوج اور انتظامیہ کو سخت مزاحمت اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ انتظامیہ کے دو تحصیلدار مارے گئے 18 فوجی اس کے علاوہ تھے اور جو اسلحہ کمانڈر نیک محمد اور ان کے ساتھی لوٹ کر لے گئے تھے اس کی تعداد بھی کافی زیادہ تھی۔
پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں سے قبضہ شدہ اسلحہ گدھوں پر لاد کر پہاڑوں پر لے جایا گیا پھر لڑائی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کمانڈر شریف’ حاجی عباس’مولوی نور اور جاوید جو بعد میں نیک محمد کے جانشین بھی بنے کافی مشہور ہوئے۔ حکومت اپنے نقصانات دیکھ کر بات چیت پر مجبور ہوئی اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پھر 5 مئی کو معاہدے پر دستخط کرنے کا دن آ گیا اس کی کہانی بھی کافی دلچسپ ہے۔
5 مئی کو علی الصبح ہمیں پشاور فلائنک کلب پہنچنے کا کہا گیا۔ پشاور سے کئی سینئر صحافی صبح 9 بجے سے قبل فلائنگ کلب میں موجود تھے۔ کسی کو پتا نہیں تھا کہ ہمیں کیوں بلایا گیا اور کہاں لے کر جا رہے ہیں۔اگرچہ حکومت اور کمانڈر نیک محمد کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا لیکن اس کے نتائج کا علم نہیں تھا۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد ہمیں ہیلی کاپٹر پر سوار کر دیا گیا اور بتایا گیاکہ ہم جنوبی وزیرستان جا رہے ہیں۔
صحافیوں کے ہیلی کاپٹر کے علاوہ بھی دو اور ہیلی کاپٹر ہمارے ساتھ تھے۔ ایک گھنٹے سے زائد سفر طے کرنے کے بعد ہمیں ہیلی کاپٹرنے کھیتوں کے بیچ بغیر لینڈنگ کے اتارا۔ گویا ہم سب چھلانگ لگا کر اترے۔ کوئی کیچڑ میں گرا تو کسی کی حالت ہیلی کاپٹر کے پروں کی تیز ہوا نے خراب کر دی۔ وہاں پہنچنے پر پتا چلا یہ شکئی کا علاقہ ہے اور مقامی مسجد میں حکومت اور کمانڈر نیک محمد کے ساتھیوں کے درمیان معاہدہ ہونے والا ہے کافی ہجوم تھا۔ ادھر جا کر یہ بھی معلوم ہوا کہ اس وقت پشاور کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل صفدر حسین بھی ہمارے ساتھ ہیں۔
جنرل صفدر حسین وہ شخصیت تھے جن کے کچھ متنازع بیانات نے حکام کے لیے مسائل بھی کھڑے کیے تھے۔ ادھر جا کریہ ہی پتا چلا کہ صحافیوں کا ہیلی کاپٹر دراصل حفاظتی مقصد کے لئے تھا خیر کچھ دیر بعد کمانڈر نیک محمد آئے اور انہوں نے ایک بندوق کور کمانڈر کے حوالے کی۔اور کور کمانڈر نے انہیں ہار پہنایا پھرحاجی عباس اور کمانڈر شریف آئے اور ہار پہن کر چلتے بنے۔ بتایا گیا کہ حکومت اور کمانڈر نیک محمد کے درمیان معاہدہ ہو گیا جس کی ضامن وزیر قبائل کی قوم تھی۔ اسی دوران مسجد کی چھت گرنے سے بھگڈر مچ گئی اور ہمیں واپس ہونا پڑا جو ہیلی کاپٹر ہمیں لیکر آئے تھے انہیں جیسا کہ ذکر کیا گیاشکئی میں نہیں اتارا گیا بلکہ وہ واپس گئے اور پھر ہمیں لینے آئے۔
پشاور پہنچتے ہی معاہدے کے حوالے سے شکوک و شبہات اٹھنے شروع ہو گئے۔ نیک محمد اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ انہوں نے ہتھیار نہیں پھینکے بلکہ کمانڈر نیک محمد نے کور کمانڈر کو تحفہ میں ایک بندوق پیش کی تھی جبکہ حکومت سمجھ رہی تھی کہ کمانڈر اور اس کے ساتھیوں نے باقاعدہ سرنڈر کرکے ہتھیار کور کمانڈر کے حوالے کئے۔ بات ادھر ختم نہیں ہوتی۔ مسئلے کی اصل وجہ غیر ملکیوں کی موجودگی کا معاملہ بھی تھا۔
حکومت کا دعویٰ تھا کہ احمد زئی وزیر قبائل اپنے ساتھ رہنے والے غیر ملکیوں کی باقاعدہ انتظامیہ کے پاس رجسٹرڈ کریں گے جبکہ کمانڈر نیک محمد اور قبائل وزیر بضد تھے کہ تحریری معاہدے میں ایسی کوئی شق شامل نہیں تھی۔ حکومت اور کمانڈر نیک محمد کے درمیان مذاکرات میں ثالث اور جمعیت علمائے اسلام کے شمالی وزیرستان سے اس وقت رکن قومی اسمبلی مولانا نیک زمان نے بھی اس کی تصدیق کی کہ معاہدے میں غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کی شرط تحریری طور پر موجود نہیں تھی۔
اس لیے معاملہ پھر سے خراب ہو گیا حکومت نے بھی علاقے میں مزید فوج بھجوائی اور ساتھ ہی قبائل پر پابندیوں میں بھی اضافہ کر دیا لیکن معاملہ حل نہیں ہوا اسی لئے اٹھارہ جون 2004ء کوڈرون حملہ کرکے کمانڈر نیک محمد کو ہلاک کیا گیا۔ ان کی ہلاکت سے مزاحمت معمولی طور پر کمزور ہو گئی لیکن وزیر قبائل اور نیک محمد کے ساتھیوں نے غیر ملکیوں کے اپنے علاقے سے انخلاء کے خلاف ہر کوشش کی بھرپور مزاحمت کی اور کئی بار حکومت کو یقین دہانی کرائی کہ یہ غیر ملکی (مجاہدین) مہمان پرامن رہیں گے لیکن نیک محمد کی ہلاکت کے دوسرے سال میں حالات بدلنا شروع ہو گئے۔
2006ء کے آخری مہینوں میں وانا سے ایسی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں کہ وہاں پر قیام پذیر غیر ملکی جنگجو جو کبھی مہمان تھے اب مالک بنتے جا رہے ہیں۔ ازبک جنگجوؤں کے ظلم و ستم کے قصے کہانیاں اب عام ہوتی گئیں۔ ازبکوں نے پہلے ترکمن مجاہدین کو نشانہ بنایا انہیں ختم کیا اپنے عقوبت خانوں میں ڈالااور اذیت رسانی کی۔ ازبک جنگجوؤں نے اپنے زیر زمین سیلوں کا جس کا میں نے خود بھی 2007ءمیں مشاہدہ کیا وہاں پرتہہ خانوں کے اندر ایسے تشدد کے اوزار رکھے تھے کہ اللہ کی پناہ۔
کمانڈر ملا نذیر کے ساتھی 2007 میں جنوبی وزیرستان میں اعظم وارسک کے علاقے میں ازبک جنگجووں کے ٹارچر سیلز کی نشاندہی کرتے ہوئے
ترکمن مجاہدین کو باقاعدہ نشانہ بازی کی مشق کی طرح استعمال کیا گیا ان کو مارنے کے لیے فائرنگ سے ہونے والے سوراخ کچی دیواروں پر کافی نمایاں تھے۔
ترکمن سے نمٹنے کے بعد ازبکوں نے مقامی لوگوں کو بھی اپنا تابع بنانا شروع کیا۔ انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔
جنوبی وزیرستان کے علاقے اعظم وارسک میں ازبک جنگجووں کے بنائے گئے تہہ خانے اور ٹارچر سیلز
پھر کیا ہوا کہ قبائل نے اپنے انہی مہمانوں سےجس کے لیے حکومت سے لڑائی لڑی، قربانی دی، جان و مال بھی وقف کیا ان کو ایک مہینے کے اندر اندر باقاعدہ لڑائی لڑکراپنے علاقے سے نکال دیا۔وزیر قبائل نے اپنے علاقے کو غیر ملکیوں سے پاک کرنے کی بہت بڑی قیمت ادا کی اور یہ کام بھی نیک محمد کے بعد ان کے باقی ماندہ ساتھیوں نے کیا۔ کمانڈر ملا نذیر کی قیادت میں غیر ملکی مہمانوں کے خلاف جنگ لڑی گئی اس میں حاجی اقبال نے ان کا ساتھ دیا۔ حاجی اقبال افغانستان سے واپسی پر امریکی حملے کا نشانہ بنے۔ اسی طرح کمانڈر ملا نذیر جنہوں نے ازبکوں سے وزیر علاقہ خالی کرایا اور اس لڑائی کی قیادت کی وہ خود بھی ایک امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنے۔ اٹھارہ جون 2004ء کو جنوبی وزیرستان میں کمانڈر نیک محمد کی ہلاکت سے امریکی ڈرون حملوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ مستقبل میں کئی برسوں تک جاری رہا اور عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائیوں میں امریکی ڈرون حملوں کی ایک علیٰحدہ تاریخ رقم کی گئی۔