Social Media

پیر, نومبر 25, 2024

ڈمہ ڈولہ کا ڈرون ہیٹرک: کہانی تین امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے قصبے کی

 مولوی محمد لیاقت ڈمہ ڈولہ کے دوسرے ڈروان حملہ میں درجنوں ساتھیوں اور شاگردوں سمیت مارے گئے : فائل فوٹو

باجوڑ صوبہ خیبرپختونخوا کے شمال میں واقع  ایک تاریخی ضلع ہے. زمانہ قدیم میں جب اس سرزمین پر بدھ مت کا دور تھا تو باجوڑ بھی گندھارا  کے جغرافیہ کاحصہ تھا۔ 

یہاں کئی تاریخی گاؤں اور علاقے واقع ہیں مگر ان میں کچھ کی وجہ شہرت قدیم, جبکہ کچھ کی وجہ شہرت گزشتہ ایک دو دہائیوں کے دوران بنی ہے جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران زیر عتاب ڈمہ ڈولہ کا علاقہ شامل ہے۔ ڈمہ ڈولہ ایک دور افتادہ پہاڑی علاقہ ہے جو کئی چھوٹے چھوٹے دیہات پر مشتمل ہے۔  

 

محل وقوع

ڈمہ ڈولہ ضلعی ہیڈکواٹر خار  سے  15 ، 20 کلومیٹرجبکہ افغان بارڈر سے محض 7،8 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ڈمہ ڈولہ کی آبادی 30 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ڈمہ ڈولہ کو 2005ء سے 2010ء تک باجوڑ میں مقامی اور غیر ملکی جنگجوؤں کا سب اہم اور مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔

وجہ اہمیت

باجوڑ میں بلاشبہ شدت پسندوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے ڈمہ ڈولہ کو ایک خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہ علاقہ اس وقت حکومت اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا جب نوے کے دہائی میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد نے مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام کے نفاذ کےلیے مسلح تحریک کا آغاز کیا۔ دراصل وہ خود معروف افغان جہادی رہنما شیخ جمیل الرحمن کے بہت قریب رہے تھے۔ شیخ جمیل الرحمٰن کو باجوڑ میں ہی ایک مصری جہادی نے مار دیا تھا۔ شیخ جمیل الرحمٰن کا  افغان جہاد میں اہم کردار رہا ہے۔ مولانا صوفی محمد بھی انہی افکار سے متاثر تھے اس لیئے تحریک نفاذ شریعت محمدی کی بنیاد رکھی۔ جس کو مقامی زبان میں "تور پٹکی” یعنی کالے پگڑیوں کی تحریک کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

اس وقت باجوڑ سے بھی لوگ بڑی تعداد میں اس تحریک میں شامل ہوئے جن میں اکثریت کا تعلق ڈمہ ڈولہ اور قریبی علاقوں سے بتایا جاتا ہے۔ باجوڑ کے راستے مولانا صوفی محمد ہزاروں افراد کا قافلہ لے کر امریکہ سے لڑنے افغانستان پہنچے تھے۔ اس سارے سلسلہ میں مولوی فقیر محمد، مولانا لیاقت اور ڈاکٹر اسماعیل پیش پیش رہے۔ ان تین عسکریت پسند کمانڈروں کا تعلق ڈمہ ڈولہ اور قریبی علاقوں سے تھا۔

 

مولوی فقیر محمد ٹی ٹی پی کے بانی رہنماؤں میں سے ہیں. افغانستان میں اشرف غنی کے دور حکومت میں جیل میں رہے اور طالبان کے حکومت آنے کے بعد رہا ہوئے.

جب 2001 کے آخر میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہزاروں غیر ملکی اور پاکستانی جنگجوؤں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کا رخ کیا اور یہاں مضبوط نیٹ ورک بنا کر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

 2007 میں جب بیت اللہ محسود کی قیادت میں تحریک طالبان کا وجود عمل میں آیا تو باجوڑ  سے تعلق رکھنے والے مولوی فقیر محمد کو نائب امیر بنایا گیا۔ اس تحریک میں بھی ڈمہ ڈولہ کے جنگجو پیش پیش رہے۔ 

 

ڈمہ ڈولہ کی سٹرٹیجیک اہمیت

جنوری 2010 تک یہاں پر طالبان کا مکمل کنٹرول تھا۔ اس علاقے میں طالبان نے مضبوط پناہ گاہیں اور مراکز قائم کیے تھے جہاں جنگجوؤں کو ٹریننگ دی جاتی تھی۔ مقامی لوگوں کے مطابق ڈمہ ڈولہ باجوڑ میں شدت پسندوں کا ایک بڑا تربیتی مرکز تھا۔ اس علاقے میں غیر ملکی جنگجو بھی بڑی تعداد میں آباد تھے۔ ان کے مطابق ڈمہ ڈولہ طالبان کےلیے اتنا اہمیت رکھتا تھا جس طرح افغانستان میں القاعدہ کے لیے ’ تورہ بورہ‘ ایک اہم علاقہ تھا۔

باجوڑ کی تحصیل ماموند میں واقع ڈمہ ڈولہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہرت کا حامل بنا

مولوی لیاقت ڈمہ ڈولہ

 مولانا محمد لیاقت 1966ء کو ضلع باجوڑ تحصیل ماموند چینہ گئی ڈمہ ڈولہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم باجوڑ کے مقامی مدرسہ میں حاصل کرنے کے بعد 1995ء میں پنج پیر صوابی کے معروف دینی ادارے دار القرآن پنج پیر سے فراغت حاصل کی۔ وہ پنج پیری طرز فکر کے معروف علمائے کرام مولانا محمد طاہر پنج پیری، شیخ عبد السلام رستمی کے شاگرد رشید تھے اور ان ہی کی فکر کا ان پر غلبہ تھا۔ درس و تدریس کے ساتھ وہ مختلف جہادی تنظیموں نفاذ شریعت محمدی وغیرہ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ 1995ء میں ڈمہ ڈولہ دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی اور یہی مدرسہ 30 اکتوبر 2006ء کو امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنا جس میں خود مولوی لیاقت اپنے درجنوں طلباء سمیت مارے گئے۔ اس حملے کی تفصیل آگے چل کر آئے گی لیکن یہ یہاں وقوع پزیر ہونے والا پہلا امریکی ڈرون حملہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی اس علاقے میں ڈرون حملہ ہوا تھا۔

پہلا ڈورن حملہ

ڈمہ ڈولہ کو ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں دراصل اس وقت توجہ حاصل ہوئی جب 13 جنوری 2006ء کو پہلی بار امریکہ نے ایک میزائل حملے میں جنگجو کمانڈر مولانا اسمعیل کے گھر کو نشانہ بنایا جس میں 18 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ حملہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی موجودگی کی اطلاع پر کیاگیا تھا تاہم عین حملہ کا وقت ان کی عدم موجودگی کو بعد میں پاکستانی اور امریکی حکام  نے تسلیم کیا۔

فروری 2023 میں القاعدہ کی جانب سے شائع کی گئی ایمن الظواہری کی فائل فوٹو

دوسرا ڈرون حملہ

تیس اکتوبر 2006ء میں ڈمہ ڈولہ میں قائم شدت پسند کمانڈر مولانا لیاقت کے مدرسے پر بمباری کی گئی جس میں مولانا لیاقت سمیت اسی افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بارے میں پاکستانی فوج کا ابتدائی طور پر کہنا تھا کہ یہ حملہ پاک فضائیہ کے طیاروں نے کیا تھا تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ان حملوں میں امریکی ڈرون ملوث تھا ۔

مولانا لیاقت کا مدرسہ ضیاالعلوم تعلیم القرآن 1998 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ مدرسہ باجوڑ کے صدر مقام خار سے تقریبا 15 کلومیٹر شمال میں ’ ڈمہ ڈولہ چینہ گئی‘ کے مقام پر واقع ہے۔
اس حملے میں مدرسے میں موجود 83 میں سے 80 افراد ہلاک جبکہ 3 زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کی عمریں 20 سے 30 برس کے درمیان بتائی جاتی ہیں۔ مدرسے کے منتظم اور کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے نائب امیر, چالیس سالہ مولوی لیاقت اور ان کے تین بیٹے بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔ مدرسے پر بمباری کے وقت حکومت کو انتہائی مطلوب مولانا فقیر محمد مدرسے میں موجود نہیں تھے البتہ بمباری کے فوری بعد وہ جائے وقوعہ پر پہنچے اور کارکنان سے خطاب کیا۔

یہ کارروائی ایسے وقت پہ کی گئی جب باجوڑ میں حکومت اور مقامی قبائل کے درمیان شمالی وزیرستان طرز کے امن معاہدے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ اس بابت مقامی قبائلی رہنماوں اور حکومت کے درمیان معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیئے مذاکرات متوقع تھے۔
اس حملے سے محض دو روز قبل مقامی شدت پسندوں نے باجوڑ علاقہ تنی ماموند میں ایک بڑے مظاہرے میں اسامہ بن لادن اور ملا محمد عمر کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ تاہم مقامی شدت پسندوں کے رہنما مولانا فقیر محمد  نے حکومت کو امن عامہ کی بحالی کے لیئے تعاون کی پیشکش بھی کرائی تھی۔ اس مظاہرے سے ہلاک ہونے والے مولوی محمد لیاقت نے بھی خطاب کیا تھا۔

ڈمہ ڈولہ, باجوڑ میں واقع مولوی لیاقت کا مدرسہ قبائلی اضلاع میں کسی بھی ڈرون حملے میں سب سے زیادہ ہلاکتوں والا مقام ثابت ہوا 

حملے کی ذمہ داری

حکومت پاکستان نے پہلی بار حملے کی ذمہ دار قبول کی۔ اس وقت کے افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان  نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ کئی روز سے مولوی لیاقت کے مدرسے پر نظر رکھی جا رہی تھی اور ان اطلاعات کی تصدیق پر کہ مدرسے کو شدت پسند کارروائیوں کی تربیت کے لیئے استعمال کیا جا رہا ہے, فوج  نے صبح پانچ بجے یہ کارروائی کی۔ شوکت سلطان کا کہنا تھا کہ فوج کے پاس ’ٹھوس شواہد‘ تھے کہ مدرسے میں ’شدت پسند‘ موجود ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے فوج نے کارروائی کی۔ اس کے بعد عوام نے شدید احتجاج کیا۔

تیسرا ڈرون حملہ

ڈمہ ڈولہ میں تیسرا امریکی میزائل حملہ 14 مئی 2008 میں کیا گیا ، یہ حملہ ڈمہ ڈولہ کے گاؤں پورے کلی میں واقع عبیداللہ نامی شخص کے گھر پر رات کے 8 بجے بغیر پائلٹ اڑنے والے طیاروں سے کیا گیا ۔ مقامی افراد کے مطابق نشانہ بننے والے گھر پر دو گائیڈڈ میزائل داغے گئے تھے جن میں تین بچوں سمیت 7 افراد ہلاک اور 6 زخمی ہو گئے تھے۔

اس حملے کے بارے میں میں برطانوی اخبار آبزرور  نے دعوٰی کیا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ کے علاقے ڈمہ ڈولہ میں امریکی میزائل حملے میں القاعدہ کا اہم رہنما ابو سلیمان الجزائری ہلاک ہوا تھا۔ آبزرور  نے پاکستانی اور یورپی انٹیلیجنس حکام کے حوالے سے دعوٰی کیا تھا کہ ابو سلیمان الجزائری القاعدہ کے بیرونی آپریشنز کا ذمہ دار تھا اور اسے یورپ اور برطانیہ میں دہشتگرد کارروائیوں کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ ابو سلیمان الجزائری کا تعلق الجزائر سے تھا ہے جو عسکری تربیت اور دھماکہ خیز مواد کی تیاری کا ماہر بتایا جاتا تھا۔ 

 

ڈمہ ڈولہ ڈرون حملے میں مارے جانے والے افراد کی تفصیلات

مدرسے کے ایک منتظم کے مطابق حملے میں مارے جانے والے 70 افراد کا تعلق باجوڑ, 2 کا تعلق سوات ،2 گلگت، 2 دیر بالا, 1 کنبڑ میدان, 1 صوابی  2  کا تعلق افغانستان کے صوبہ نورستان سے تھا. 26 افراد کو مدرسے کے قریب سپردخاک کیا گیا تھا جس میں 18کمسن تھے جنکی عمریں 8 سال سے لیکر 15سال تک تھیں۔

واقعہ میں مارے جانے والے افراد کی تفصیل کچھ یوں ہے , مولانا لیاقت علی جو مدرسے کے مہتمم تھے ، محمد طاہر ولد مولوی خلیفہ، شہاب الدین ولد فاتح محمد، فضل وہاب ولد سادہ خان، ضیاء الدین ولد نادر خان، گل حکیم، شاہ جہان خان، ضیاء الرحمن ولد مولوی تاج محمد، عزیز الوہاب ولد سید محمد، حق نواز عبدالصمد، برہان الدین، اسماعیل، گل وحیب الرحمن، ضیاء الرحمن ولد عبیدا لرحمن، جمشید خان ولد محمد خان،جمروز خان ولد معشوق، عنایت الرحمن، عبید اللہ، یحییٰ، راحت اللہ،فضل سبحان ، شاکر اللہ، قاری سعید اللہ، معشوق خان،راضی محمد، نواب خان، نور محمد، سلطنت خان، عالمزیب، عنایت اللہ، عبداللہ ولد محمدزادہ، شیر ولد حبیب اللہ، نعمان، جمروز، احسان اللہ، عبدالوارث ولد مسافر، غلام نبی ولد بادشاہ خان، سلیمان بشیر ولد گل امین، منیر ولد بسم اللہ، شعیب ولد شمار الدین، اسد اللہ ولد محبوب اللہ، سہیل ولد عبدالوہاب،خان محمد، الیاس ولد سید رحیم، عدنان، نجیب اللہ، نعیم اللہ، حزب اللہ، کتاب گل، ولایت خان، ذبیح اللہ ان سب کا تعلق باجوڑ ایجنسی کے علاقہ ڈمہ ڈولہ ، گٹگے، مٹو چینہ گئی ، انعام خورو چینہ گئی، غونڈو، پشت، زوربند، سالارزئی کے علاقوں سے تھا۔

 دیگر ناموں میں فضل واحد سکنہ کانجو سوات، سلمان خان ولد سید، ملوک مٹہ سوات ، عنایت اللہ ولد محمد زادہ کنبڑ میدان دیر پائین، افتخار ولد شیر زمان صوابی، حماد اللہ اور سعید اللہ ولد دریاب کمر سر, دیر بالا شامل تھے۔ ایک گھر جو ڈمہ ڈولہ میں واقع ہے,  پر اس سے قبل بھی بمباری ہوئی تھی, اس گھر کے پانچ بچے جس میں 3 کی عمر 8 سال سے 15 سال جبکہ دو نوجوان جن کی عمریں 18 سے 20 سال تک تھیں, اس بمباری میں لقمہ اجل بنے۔

 

محمد بلال یاسر قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں ۔ مختلف ویب سائٹس ، میگزین اور اخبارات کیلئے مختلف موضوعات پر ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں ۔

error: Content is protected !!